|
نواب صاحب
کاآپریشن تو ان کے مقابلے میں کوئی چیز نہ تھا۔
نواب صاحب کی بہن اور انکی بانجی کو کسی طرح اطمینان ہی نہ ہوتا تھا۔
” پھو پھی صاحبہ آپ نہیں جانتیں۔“ بیگم صاحبہ سے سلیم نے کہا۔” ڈاکٹر شوکت صاحب کا
ثانی پورے ہندوستا ن میں نہیں مل سکتا۔“
” میں کس قابل ہوں۔“ ڈاکٹر شوکت نے خاکسارانہ انداز میں کہا” سب خدا کی مہربانی اور
اس کا احسان ہے۔“
” ہاں یہ تو بتائےے کہ آپریشن سے قبل کوئی دوا وغیرہ دی جائے گی ۔“ کنور سلیم نے
پوچھا۔
” فی الحال میں ایک انجکشن دوں گا۔“
” اور آپریشن کب ہوگا۔“ نواب صاحب کی بہن نے پوچھا۔
” آج ہی آٹھ بجے رات سے آپریشن شروع ہوجائے گا۔ چار بجے تک میرا اسسٹنٹ اور دو
نرسیں یہاں آجائیں گی۔“
” میرا تو دل گھبرا رہا ہے ۔ “ نواب صاحب کی بھانجی نے کہا۔
” گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔ میں اپنی ساری کو ششیں صرف
کردوں گا۔ کیس کچھ ایسا خطرناک بھی نہیں ۔ خدا تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ
آپریشن کامیاب ہوگا۔ آپ لوگ قطعی پریشان نہ ہوں۔ “
ڈاکٹر صاحب آپ اطمینان سے اپنی تیاری مکمل کیجئے۔“ کنور سلیم ہنس کر بولا ” بیچاری
عورتوں کے بس میں گھبرانے کے علاوہ او رکچھ نہیں۔“
نواب صاحب کی بہن نے اسے تیز نظروں سے دیکھا اور نجمہ کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں ۔
” میرا مطلب ہے پھو پھی صاحبہ کہ کہیں ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کی حالت دیکھ کر بددل نہ
ہوجائیں۔ اب چچا جان کو اچھا ہی ہوجانا چاہئے ۔ کوئی حد ہے اٹھارہ دن ہوگئے۔ ابھی
تک بے ہوشی زائل نہیںہوئی۔“
” تم اس طرح کہہ رہے ہو گویا ہم لوگ انہیں صحت مند دیکھنے کے خواہشمند نہیں ہیں “
بیگم صاحبہ نے منہ بنا کر کہا۔
” خیر ۔خیر“ فیملی ڈاکٹر توصیف نے کہا” ہاں تو ڈاکٹر شوکت میرے خیال سے اب آپ
انجکشن دے دیجئے۔“
ڈاکٹر شوکت،ڈاکٹر توصیف اور کنور سلیم بالائی منزل پر مریض کے کمرے میں چلے گئے اور
دونوں ماں بیٹی ہال ہی میںرک کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔نجمہ کچھ کہہ رہی تھی
اور نواب صاحب کی بہن کے ماتھے پر شکنیں ابھر رہی تھیں۔ انہوں نے دو تین بار زینے
کی طرف دیکھا اور باہر نکل گئیں۔
انجکشن سے فارغ ہوکر ڈاکٹر شوکت، کنور سلیم اورڈاکٹر توصیف کے ہمراہ باہر آیا۔
” اچھا کنور صاحب اب ہم لوگ چلیں گے چار بجے تک نرسیں اور میرا اسسٹنٹ آ پ کے یہاں
آجائیں گے اور میں بھی ٹھیک چھ بجے یہاں پہنچ جاﺅں گا۔ “ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” تو یہیں قیام کیجئے نا۔“ سلیم نے کہا۔
” نہیں ڈاکٹر توصیف کے یہاں ٹھیک رہے گا اور پھر قصبے میں مجھے کچھ کام بھی ہے۔ ہم
لوگ چھ بجے تک یقینا آجائیں گے۔“ڈاکٹر کار میں بیٹھ گئے لیکن ڈاکٹر شوکت کی پے در
پے کوششوں کے باوجود بھی کار اسٹارٹ نہ ہوئی۔
”یہ تو بڑی مصیبت ہوئی۔“ ڈاکٹر شوکت نے کار سے اتر کر مشین کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
” فکر مت کیجئے میں اپنی گاڑی نکال کر لاتا ہوں ۔“کنور سلیم نے کہا اور لمبے لمبے
ڈگ بھرتا ہوا گیراج کی طرف چلاگیا۔ جو پرانی کوٹھی کی قریب واقع تھا۔
“
|