|
تھوڑی دیر بعد نواب صاحب کی بہن آگئیں۔
”ڈاکٹر شوکت کی کار خراب ہوگئی کنور صاحب کار کے لئے گئے ہیں۔“ ڈاکٹر توصیف نے ان
سے کہا۔
”اوہ کار تو میں نے صبح ہی شہر بھیج دی ہے او ر بھائی جان والی کار عرصے سے خراب
ہے۔“
” اچھا تو آئےے ڈاکٹر صاحب ہم لوگ پیدل ہی چلیں صرف ڈیڑھ میل تو چلنا ہے۔“ ڈاکٹر
شوکت نے کہا۔
” ڈاکٹر توصیف ! مجھے آپ سے کچھ مشورہ کرنا ہے۔“ نواب صاحب کی بہن نے کہا۔“ اگر آپ
لوگ شام تک یہیں ٹھہریں تو کیا مضائقہ ہے۔“
” بات دراصل یہ ہے کہ مجھے چند ضروری تیاریاں کرنی ہیں۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔” ڈاکٹر
صاحب کو آپ روک لیں ۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔“
آپ کچھ خیال نہ کیجئے گا۔“ بیگم صاحبہ بولیں ” اگر کار شام تک واپس آگئی تو میں چھ
بجے تک بھجوادوں گی ورنہ پھر کسی دوسری سواری کا انتظام کیا جائے گا۔“
” شام کو تو میں ہر صورت میںپیدل ہی آﺅں گا کیونکہ آپریشن کے وقت میں چاک وچوبند
رہنا چاہتا ہوں ۔“ شوکت نے کہا اور قصبے کی طرف روانہ ہوگیا راہ میں کنور سلیم ملا۔
”مجھے افسوس ہے ڈاکٹر کہ اس وقت کار موجود نہیں آپ یہیں رہےے آخر اس میں حرج
کیاہے۔“
” حرج تو کوئی نہیں لیکن مجھے تیاری کرنی ہے۔“ ڈاکٹر شوکت نے جواب دیا۔
” اچھا تو چلئے میں آپکو چھوڑ آﺅں ۔“
” نہیں شکریہ ۔ راستہ میرا دیکھا ہوا ہے۔“
ڈاکٹرشوکت جیسے ہی پرانی کوٹھی کے قریب پہنچا اسے ایک عجیب قسم کا وحشیانہ قہقہہ
سنائی دیا۔عجیب الخلقت بوڑھا پروفیسر عمران قہقہے لگاتا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
” ہیلو ہیلو“ بوڑھا چیخا۔” اپنے مکان کے قریب اجنبیوں کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی
ہے۔“
ڈاکٹرشوکت رک گیا اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کے سارے روئیں کھڑے ہو گئے ہوں ۔
اتنی خوفناک شکل کا آدمی آج تک اس کی نظروں سے نہ گذرا تھا۔
” مجھ سے ملئے۔ میں پرفیسر عمران ہوں۔“ اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا
”اور آپ۔“
” مجھے شوکت کہتے ہیں۔“ شوکت نے بہ دلِ نخواستہ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
لیکن اس نے محسوس کیا کہ ہاتھ ملاتے وقت بوڑھا کچھ سست پڑ گیا تھا بوڑھے نے فوراً
ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور قہقہہ لگاتا، اچھلتا کودتا، پھر پرانی کوٹھی میں واپس
چلا گیا۔
ڈاکٹرشوکت متحیر کھڑا تھا دفعتاً قریب کی جھاڑیوں سے ایک بڑا سا کتا اس پر جھپٹا۔
ڈاکٹرشوکت گھبرا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا کتے نے ایک جست لگائی اور بھیانک چیخ کے
ساتھ زمین پر آرہا چند سیکنڈ تک وہ تڑپا او ر پھر بے حس و حرکت ہو گیا۔ یہ سب اتنی
جلدی ہوا کہ ڈاکٹرشوکت کو کچھ سمجھنے کا موقعہ نہ مل سکا۔اس کے بعد کچھ سمجھ ہی میں
نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
” ارے یہ میرے کتے کو کیا ہوا ٹائیگر، ٹائیگر“ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ شوکت چونک
پڑا۔ سامنے نواب صاحب کی بھانجی کھڑی تھی۔
|