|
اس کے بعد اچانک
اس کے عادات و اطوار میںتبدیلیاں ہونی شروع ہو گئیںاور اب تو سبھی کا یہ خیال ہے کہ
اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔“
”میں نے تو صاحب آج تک اتنا بھےانک آدمی آج تک نہیں دیکھا“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد ڈاکٹر توصیف بولا۔” ہاں تو آپ کا کیا پرگرام ہے
میرے خیال سے تو اب دوپہر کا کھانا کھالینا چاہیے۔“
کھانے کے دوران آپریشن اور دوسرے موضوعات پرگفتگو ہوتی رہی۔ اچانک ڈاکٹر شوکت کو
کچھ یا د آگیا۔
ڈاکٹر صاحب میںجلدی میں اپنے اسسٹنٹ کو کچھ ضروری ہدایات دینا بھول گیا ہوں اگر آپ
کوئی ایسا انتظام کرسکیں کہ میرا رقعہ اس تک پہنچا دیا جائے تو بہت اچھا ہو۔“ ڈاکٹر
شوکت نے کہا۔
” چلئے اب دو کام ہوجائےں گے۔“ ڈاکٹر توصیف نے کہا میں دراصل شہر ہی جانے کے لئے
نواب صاحب کی کار لایا تھا۔ آپ رقعہ دے دیجئے گا اور ہاں کیوں نہ آپ کے ساتھیوں کو
اپنے ساتھ لیتا آﺅں۔“
” اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔“
” اس رقعہ کے علاوہ کوئی اور کام؟“
” جی نہیں شکریہ میرے خیال سے آپ ان لوگوں کو اسی طرف سے کوٹھی لیتے جائےے گا۔“
” بہتر ہے چھ بجے آپ کے لئے کار بھجوادی جائے گی ۔“
”نہیںا س کی ضرورت نہیں میں پیدل ہی آﺅں گا۔“
© ©”کیوں؟“
بات دراصل یہ ہے ڈاکٹر صاحب کہ آپریشن ذرا نازک ہے میں چاہتا ہوں کہ آپریشن سے قبل
اتنی ورزش ہو جائے جس سے جسم میں چستی پیدا ہوسکے۔“
”ڈاکٹر شوکت میں آپ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا در حقیقت ایک اچھے ڈاکٹر کو
ایسا ہی ہونا چاہیے“
ڈاکٹر توصیف کے چلے جانے بعد ڈاکٹر شوکت نے یکے بعد دیگرے وہ کتابیں پڑھنا شرو ع
کیں جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ ایک کاغذ پر پینسل سے کچھ ڈائیگرام بنائےاور دیر تک
انہیں دیکھتا رہا پرانے ریکارڈوں کے کچھ فائل دیکھےانہی مشغولیات میںدن ختم ہوگیا۔
تقریباً پانچ بجے اس نے کتابیں اور فائل ایک طرف رکھ دئےے۔ اسے ٹھیک چھ بجے یہاں سے
روانہ ہونا تھا دسمبر کا مہینہ تھا۔ شام کی کرنوں کی زردی پھیکی پھیکی سرخی میں
تبدیل ہو تی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر توصیف کا نوکر انڈے کی سینڈوچ اور کافی لے آیا۔ رات
کا کھانا سلیم کی درخواست کے مطابق اسے کوٹھی میں کھانا تھا اس لئے اس نے صرف ایک
سینڈوچ کھائی اوردوکپ کافی پینے کے بعد سگریٹ سلگا کرٹہلنے لگا۔ گھڑی نے چھ بجائے
اس نے کپڑے پہنے اور چسٹر کاندھے پر ڈال کر روانہ ہوگیا۔ وہ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا
جارہا تھا چاروں طرف تاریکی پھیل گئی تھی سرک کے دونوں طرف گھنی جھاڑیاں اور درختوں
کی لمبی قطاریں تھیں جن کی وجہ سے سڑک خصوصا اور زیادہ تاریک ہو گئی تھی۔ لیکن
ڈاکٹر شوکت آپریشن کے خیال میں مگن بے خوف چلا جارہاتھا اس سے تقریباً پچاس گز
پیچھے ایک دوسرا آدمی جھاڑیوںسے لگا ہوا چل رہا تھا شاید اس نے ربڑ سول کے جوتے پہن
رکھے تھے جس کی وجہ سے ڈاکٹر شوکت اس کے قدموں کی آواز نہیںسن رہا تھا۔ ایک جگہ
ڈاکٹر شوکت سگریٹ سلگانے کے لئے رکا ساتھ ہی وہ شخص بھی رک کر جھا ڑیوں کی اوٹ میں
چلا گیا۔ جیسے ہی شوکت نے چلنا شروع کیاوہ پھر جھاڑیوں سے نکل کر اسی طرح اس کا
تعاقب کرنے لگا۔
سڑک زیادہ چلتی ہوئی نہ تھی۔ وجہ یہ تھی یہ سڑک محض کو ٹھی کے لئے بنائی گئی تھی۔
اگر نواب صاحب نے اپنی کوٹھی بستی کے باہر نہ بنوائی ہوتے۔
|