|
دلیر مُجرم
(ابنِ صفی)
1
”مجھے جانا ہی پڑے گا مامی“ ڈاکٹر شوکت نے کمرے میںداخل ہوتے ہوئے اوور کوٹ کی
دوسری آستین میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
”ایشور تمہاری رکھشا کرے اور اس کے سوا میں کہہ ہی کیا سکتی ہوں۔“ بوڑھی سیتا دیوی
بولیں۔ ”لیکن سر میں اچھی طرح مفلر لپیٹلو۔ سردی بہت ہے۔“
”مامی“ ڈاکٹر شوکت بچکانے انداز میں بولا۔” آپ تومجھے بچہ بنائے دے رہی ہیں مفلر سر
میں لپیٹ لوں! ہا ہا ہا۔“
” اچھا بوڑھے میاں جو تمہارا جی چاہے کرو۔“ سیتا دیوی منہ پھلا کر بولیں ۔”مگر میں
کہتی ہوں یہ کیسا کام ہوگیا نہ دن چین نہ رات چین ۔ آج آپریشن ، کل آپریشن۔“
” میں اپنی اچھی مامی کو کس طرح سمجھاﺅں کہ ڈاکٹر خود آرام کرنے کیلئے نہیں ہوتا
بلکہ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے ہوتاہے۔“
” میں نے تو آج خاص طور سے میکرونی تیار کرائی تھی۔کیارات کا کھانا بھی شہر ہی میں
کھاﺅگے۔“ سیتا دیوی بولیں ۔
” کیا کروں مجبوری ہے۔ اس وقت سات بجے رہے ہیں۔ نو بجے رات کو آپریشن ہوگا، کیس ذرا
نازک ہے ابھی جاکر تیاری کرنی ہوگی اچھا خدا خافظ۔“
ڈاکٹر شوکت اپنی چھوٹی سی خوبصورت کار میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہوگیا وہ سول
ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن کی حےثیت سے کا م کر رہا تھا ۔ دماغ کے آپریشن کا ماہر ہونے
کی حےثیت سے اس کی شہرت دور دور تک تھی۔ حالانکہ ابھی اس کی عمر کچھ ایسی نہ تھی وہ
چوبیس پچیس برس کا ایک خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا۔ اپنی عادت واطوار اور سلیقہ
مندی کی بنا پر وہ سو سائٹی میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔قربانی کا جذبہ تو
اس کی فطرت ثانیہ بن گیا تھا۔ آج کا آپریشن وہ کل پر بھی ٹال سکتا تھا لیکن اس کے
ضمیر نے گوراہ نہ کیا۔
سیتا دیوی اکثر اس کی بھاگ دوڑ پر جھلابھی جایا کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی
طرح پالا تھا۔ وہ ہندو دھرم کی ماننے والی ایک بلند کردار خاتون تھیں۔ انہوں نے
اپنی دم توڑتی سہیلی جعفری خانم سے جو وعدہ کیاتھا اسے آج تک نبھائے جا رہی تھیں۔
انہوں نے ان کے بیٹے کو ان کی وصیت کے مطابق ڈاکٹری کی اعلاتعلیم دلا کر اس قابل کر
دیا تھا وہ آج سارے ملک میں اچھی خاصی شہرت رکھتا تھا۔ اگر چہ شوکت کے والدہ اس کی
تعلیم کے لئے معقول رقم چھوڑکر مری تھیں۔ لیکن کسی دوسرے کے بچے کو پالنا آسان کام
نہیں اور پھر بچہ بھی ایساجس کا تعلق غیر مذہب سے ہو اگر وہ چاہتیں تواسے اپنے مذہب
پر چلا سکتی تھیں لیکن ان کی نیک نیتی نے اسے گوراہ نہ کیا۔ دنیا وی تعلیم کے ساتھ
ساتھ انہوں نے اس کی دینی تعلیم کابھی معقول انتظام کیاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ
نوجوان ہونے پربھی شوکت علی ہی بنا رہا۔ سیتا دیوی کی برادری کے لوگوں نے ایک
مسلمان کے ساتھ رہنے کی بناءپر ان کا بائیکاٹ کر رکھاتھا مگر وہ اپنے مذہب کی پوری
طرح پابند تھیںاور شوکت کو اس کے مذہبی احکام کی تعمیل کے لئے مجبور کرتی رہتی تھیں۔
وہ ڈاکٹر شوکت کے اور ایک ملازمہ کے ساتھ نشاط نگر نامی قصبہ میںرہ رہی تھیں۔ جو
شہر سے پانچ میل کی دوری پر واقع تھا۔ یہ ان کی اپنی ذاتی کوٹھی تھی۔ وہ جوانی ہی
میں بیوہ ہوگئی تھیں ۔ان کے شو ہر اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے جوکسی قریبی عزیز
کے نہ ہونے کی بنا ءپر پوری کی پوی انہیں کے حصے میں آئی تھی۔
|