|
تو پھر اس سڑک کا کوئی
وجود بھی نہ ہوتا۔شوکت کے وزنی جوتو ں کی آواز اس سنسان سڑک پر اس طرح گونج رہی تھی
جیسے وہ جھاڑیوں میں دبک کر ”ٹیںٹیں ریں ریں “ کرنے والے جھینگروں کو ڈانٹ رہی ہو
شوکت چلتے چلتے ہلکے سروں میںسیٹی بجانے لگا۔ اسے اپنے جوتوں کی آواز سیٹی کی دھن
پر تال دیتی معلوم ہو رہی تھی۔کسی درخت پر ایک بڑے پرندے نے چونک کر اپنے پر پھڑ
پھڑائے اور اڑ کر دوسری طرف چلا گیا جھاڑیوں کے پیچھے قریب ہی گیدڑوں نے چیخنا شروع
کر دیا جو شخص ڈاکٹر شوکت کا پیچھا کر رہا تھا اس کا اب کہیںپتہ نہ تھا کچھ آگے بڑھ
کر بہت زیادہ گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں پر دونوں طرف کے درختوں کی
شاخیں آپس میں مل کر اس طرح گنجان ہوگئیں تھیں کی آسمان نہیں دکھائی دیتا تھا ڈاکٹر
شوکت دنیاءمافیہا سے بے خبر اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس کے منہ سے ایک
چیخ نکلی اور ہاتھ اوپر اٹھ گئے اس کے گلے میں ایک موٹی سی رسی کا پھندا پڑا
ہواتھاآہستہ آہستہ پھندے کی گرفت تنگ ہوتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ وہ اوپر اٹھنے لگا
گلے کی رگیں پھول رہی تھیں آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑی تھیں اس نے چیخنا چاہا لیکن
آواز نہ نکلی اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کا دل کنپٹیوں اور آنکھوں میں دھڑک
رہا ہو۔آہستہ آہستہ اسے تاریکی گہری ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ جھینگروں اور گیدڑوں کا
شور دور خلا میں ڈوبتا جا رہاتھا۔ پھربالکل خاموشی چھا گئی۔ وہ زمین سے دوفٹ کی
بلندی پر جھول رہا تھا۔کوئی اسی درخت پر سے کود کر جھا ڑیوں میں غائب ہوگیا پھر ایک
آدمی اس کی طرف دوڑ کر آتا دکھائی دیا اسکے قریب پہنچ کر اس نے ہاتھ ملتے ہوئے ادھر
ادھر دیکھا دوسرے لمحے میں وہ پھرتی سے درخت پر چڑھ رہاتھا ایک شاخ سے دوسری شاخ پر
کودتا ہوا وہ اس ڈال پر پہنچ گیا، جس سے رسی بندھی ہوئی تھی اس نے رسی ڈھیلی کر کے
آہستہ آہستہ ڈاکٹر شوکت کے پیر زمین پر ٹکا دئےے پھر رسی کواسی طرح باندھ کر نیچے
اتر آیا اس نے جیب سے چاقو نکال کر رسی کاٹی اور شوکت کو ہاتھوں پر سنبھالے ہوئے
سڑک پر لٹا دیا پھندا ڈھیلا ہوتے ہی بے ہوش ڈاکٹر گہری گہری سانسیں لے رہاتھا۔ پر
اسرار اجنبی نے دیا سلائی جلاکراس کے چہرے پر نظر ڈالی ۔ آنکھوں کے پپوٹوں میں جنبش
پیدا ہوچکی تھیایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ دس پانچ منٹ کے بعد ہوش میں آجائے گا۔
دو تین منٹ گزر جانے پرا س کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی اور اجنبی جلدی سے جھاڑیوں کے
پیچھے چھپ گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک کراہ کے ساتھ وہ اٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف
دیکھنے لگاآہستہ آہستہ کچھ دیر قبل کے واقعات اس کے ذہن میں گونج اٹھے بے اختیار اس
کا ہاتھ گردن کی طرف گیا۔لیکن اب وہاں رسی کا پھندا نہ تھا۔ البتہ گردن بری طرح دکھ
رہی تھی اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کس طرح بچ گیا اب اسے فریدی مرحوم کے الفاظ بری
طرح یاد آرہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ سیتا دیوی کی خواب کی بڑبڑاہٹ بھی یاد آگئی تھی”
راج روپ نگر“ اس کے سارے جسم سے ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ چھوٹ پڑا۔ وہ سوچنے لگا۔ وہ بھی
کتنا احمق تھاکہ اسنے فریدی کے الفاظ بھلادئےے اور ااس خوفناک جگہ پر اندھیری رات
میں تنہا چلا آیا اس کی جان لینے کی یہ دوسری کوشش تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس
نیپالی کا نقشہ پھر گیا جس نے اسے دھمکی دی تھی پھراچانک وہ زہریلی سوئی یاد آئی
اور پروفیسر کا بھیانک چہرہ جو اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھا تھا اور ٹھیک اسی جگہ
کتا بھی اچھل کر گرا تھا تو کیاپروفیسر لیکن آخر کیوں ؟یہ سب سوچتے سوچتے اسے اپنی
موجودہ حالت کا خیال آیا اور وہ کپڑے جھاڑتا ہواکھڑا ہوگیا چسٹر قریب ہی پڑا تھا اس
نے جلدی سے چسٹر اٹھاکر کندھے پر ڈالا اور تیزی سے کوٹھی کی طرف روانہ ہوگیا اس نے
سوچا کہ گھڑی میں وقت دیکھے لیکن پھر دیا سلائی جلا کر دیکھنے کی ہمت نہ پڑی“
کوٹھی میں سب لوگ بے صبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے سات بجے آنے کا وعدہ
کیا تھالیکن اب آٹھ بج رہے تھے۔
”شوکت بہت ہی بااصول آدمی معلوم ہوتا ہے نہ جانے کیا بات ہے۔“ ڈاکٹر توصیف نے باغ
میں ٹہلتے ہوئے کہا۔
نجمہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ رہی تھی۔
” کیا بات ہو سکتی ہے۔“کنور سلیم نے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے ہوئے پیشانی پر ہاتھ رکھ
کر اندھیرے میںگھورتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے کہ وہ دیر میں گھر سے روانہ ہوا میں تو کہہ رہاتھا کہ کاربھجوادوںگا
لیکن اس نے کہاکہ میں پیدل ہی آﺅں گا۔
|