|
آں یہ کون آرہا ہے ہلوڈاکٹر بھئی انتظار کرتے
کرتے آنکھیں پتھراگئیں۔“
ڈاکٹر شوکت برآمدے میںداخل ہوچکا تھا ہ راستے بھر اپنے چہرے سے پریشانی کے آثار
مٹانے کو کوشش کرتا آیاتھا۔
” مجھے افسوس ہے“ڈاکٹر شوکت نے مسکراتے ہوئے کہا” اپنی حماقت کی وجہ سے چلتے وقت
ٹارچ لانا بھول گیا نتیجہ یہ ہو اکہ راستہ بھول گیا۔“
” لیکن آپ کے سر میں یہ اتنے سارے تنکے کہاں سے آگئے جی وہاں نہیں پیچھے کی طرف“
نجمہ نے مسکرا کر کہا۔
” تنکے اوہ کچھ نہیں ہٹایئے بھی کوئی یہ ایسی خاص بات نہیں ۔“ڈاکٹر شوکت نے کچھ
بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
” نہیں نہیں بتائےے نا آخر بات کیاہے؟“سلیم نے سنجیدگی سے کہا۔
” ارے وہ تو ایک پاگل کتا تھا راہ میں اس نے مجھے دوڑایااندھیرا کافی تھا۔ میں
ٹھوکر کھا کر گر پڑا وہ تو کہئے ایک راہ گیر ادھر آنکلا ورنہ“
”آج کل دسمبر میں پاگل کتا“ نجمہ نے حیرت سے کہا ” کتے تو عموماً گرمیوں پاگل ہوتے
ہیں“
” نہیں یہ ضروری نہیں “ کنور سلیم نے جواب دیا”اکثر سردیوں میں بھی بعض کتوں کا
دماغ خراب ہو جاتا ہے خیر آپ خوش قسمت تھے ڈاکٹر شوکت پاگل کتوں کا زہر بہت خطرناک
ہوتا ہے آپ تو جانتے ہی ہوں گے۔“
”ہاں بھئی ڈاکٹر و ہ آپ کے آدمیوں نے بیمار کے کمرے میں ساری تیاریاں مکمل کرلی ہیں
وہ لوگ اس وقت وہیں ہیں “ڈاکٹر توصیف نے کہا۔
” آپ کے انتظار میں شاید ان لوگوں نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا “ نجمہ بولی
” میرا انتظار آپنے ناحق کیا۔ میں آپریشن سے قبل تھوڑا سا سوپ پیتا ہوں کھانا
کھالینے کے بعد دماغ کسی کام کانہیں رہ جاتا“
” جی ہاں میں نے بھی اکثرکتابوں میں یہی پڑھا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ دنیا
کے بڑے آدمی نے یہ ضرور کہا ہوگا۔“ نجمہ نے شوخی سے کہاڈاکٹر شوکت نے مسکرا کر اس
کی طرف دیکھا۔نجمہ سے نگاہیں ملتے ہی وہ زمین کی طرف دیکھنے لگا۔
” خیر صاحب جو کچھ سہی میں تو دن بھر میں پانچ سیر سے کم نہیں کھاتا۔“کنور سلیم نے
ہنس کر کہا” کھانا دیر سے منتظر ہے ہر تندرست آدمی کا فرض ہے کہ اسے انتظار کی زحمت
سے بچائے۔“
سب لوگوں کھانے کے کمرے میں چلے گئے۔
پرانی کوٹھی کے پائیں باغ میں پرفیسر عمران کسی سے گفتگو کر رہا تھا۔ کبھی کبھی
دونوں کی آوازیں بلند ہوکر خلا میں ڈوب جاتیں ۔
پرفیسر عمران کہہ رہا تھا” لیکن میں نہیں جاﺅں گا۔“
”تو اس میں بگڑنے کی کیا بات ہے۔میری جان“ دوسری آواز سنائی دی ” نہ جانے میں
تمہارا ہی نقصان ہے“
” میرا نقصان “ پرفیسر کی آواز آئی” یونان اور روم کے دیوتا کی قسم ہرگز نہ جاﺅں
گا۔“
” تمہیں چلنا پڑے گا۔“کسی نے کہا۔
”سنو اے ابابیل کے بچے تم میں اتنی ہمت نہیںکہ مجھے میری مرضی کے خلاف کہیں لے
جاسکو۔“پروفیسر چیخا۔
” خیر نہ جاﺅ لیکن تمہیں اس کے لئے پچھتانا پڑے گا دیکھنا ہے کہ تمہیں کل سے سفیدہ
کیسے ملتا ہے۔“دوسرے آدمی نے کہا اور باغ سے نکلنے لگا۔
”ٹھہروٹھہرو تو ایسے بات کرو ناتم نے پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا کہ تم بیر بہوٹی کے
بچے ہو۔‘ پروفیسر ہنس کر بولا۔
|