|
”بیر بہوٹی ! ہاں بیر بہوٹی۔ مگر اس کے لئے تمہیں میرے ساتھ مالی کے جھونپڑے تک
چلنا ہوگا۔“
” اچھا آﺅ تو پھر چلیں “ پرفیسر عمران نے کہااور وہ دونوں مالی کے جھونپڑے کی طرف
چل پڑے
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد پرفیسر لنگڑاتا ہوا مالی کے جھونپڑے سے باہر نکلا وہ
اکیلا تھا اور اس کے کاندھے پر ایک وزنی گٹھڑی تھی ایک جگہ رک کر اس نے ادھر ادھر
دیکھا، پھر مالی کے جھونپڑے کی طرف گھونسہ تان کر کہنے لگا۔
ابے تو نے مجھے سمجھا کیا ہے میں تجھے کتے کا گوشت کھلادوں گا چھچھوندر کی اولاد
نہیں تو مریخ،زحل ،مشتری، عطارد سب کے سب تیری جان کے دشمن ہوجائیں گے اے میں وہ
ہوں جس نے سکندر اعظم کا مرغا چرایاتھاچمگاڈر مجھے سلام کرنے آتے ہیں اچھی طرح
جانتا ہوں کہ تو اپنے دادا کا نطفہ ہے چلا ہے وہاںسے مکھیاں مارنے بڑا آیا کہیں کا
تیس مار خاں تیس مار خاں کی ایسی کی تیسینہیں جانتا کہ میں بھوتوں کاسردار ہوں آﺅ
اے غرفوس اسے کھا جاﺅ آو ¿ اے ارسلا نوس اسے چبا جاﺅچڑیلوں کی حرافہ نانی اشقلونیا
تو کہاں ہے دیکھ میں ناچ رہا ہوں میں تیرا بھتےجا ہوں آجا پیاری “
یہ کہہ کر پروفیسر نے وہیں ناچنا شروع کردیا پھر وہ سینے پر ہاتھ مار کر کہنے
لگا۔”میں اس آگ کا پجاری ہوں جو مریخ میں جل رہی ہے۔ ہزار سال سے میںاس کی پوجا
کرتا ہوا آرہاہوں ۔میں پانچ ہزار سال سے انتظار کر رہا ہوں ۔ لیکن وہ ستارہ کبھی نہ
ٹوٹے گا اے کہ میںتیرے لےے خرگوش پالے۔ اے کہ میں تجھے گلہریوں کے کباب کھلاتا ہوں
میں تتلیوں کے پروں سے سگریٹ بنا کر تجھے پلاتا ہوںاے پیارے ابلیس تو کہاں ہے ں
تجھے اپنا کاٹ کر کھلادوں گا“
وہ اور ناجانے کیا بڑبڑاتا اچھلتا کودتا ہوا پرانی کوٹھی کے باغ میں غائب ہوگیا۔
مریض کے کمرے کا منظر حد درجہ متاثر کن تھا۔ نرس اور ڈاکٹر سب سفید کپڑوں میں ملبوس
آہستہ آہستہ ادھر ادھر آجا رہے تھے۔ آپریشن ٹیبل جو سول ہسپتال سے خاص اہتمام کے
ساتھ یہاں لائی گئی تھی۔ کمرے کے وسط میں پڑی تھی مریض کو اس پر لٹایا
جاچکاتھا۔کمرے میں بہت زیادہ طاقت والے بلب روشن کر دئےے گئے تھے۔ میلائچیوں میں
گرم و سرد پانی رکھا ہوا تھا۔ اسی قریب ایک دوسری میز پر عجیب و غریب قسم کے آپریشن
کے اوزار اور ربڑ کے دستانے پڑے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر شوکت کچھ دیر قبل پیش آئے ہوئے حادثے کو قطعی بھلاچکا تھا۔ اب اس کا دھیان
صرف آپریشن کی طرف تھا۔ایک آدمی کی زندگی خطرے میں تھی وہ اسے خطرات سے نکالنے
جارہاتھا۔ یہ اس کے امکان میں تھا اس نے اپنی تمام تر کوششیں صرف کر دینے کا تہیہ
کر لیاتھا۔ نو جوان ماہر یہ بھی اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ا گرا سے اس کیس میں
کامیابی ہو گئی تواس کی شخصیت کہیں کی کہیںجا پہنچے گی۔ کامیابی اسے ترقی کے زینوں
پر لے جائے گی اور ناکامی! لیکن نہیں اسکے ذہن میں ناکامی کے خیال کا نام و نشان
بھی نہ تھا۔وہ ایک مشاق ماہر فن کی طرح مطمئن نظر آرہا تھا۔ ڈاکٹر توصیف بھی کمرے
میں موجود تھا۔ لیکن اس کی حیثیت ایک تماشائی جیسی تھی وہ دیکھ رہا تھا اور متحیر
ہو رہا تھا کہ یہ نو جوان لڑکا کس طرح سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی تیاری میں مصروف
ہے ایسے موقعوں پر اتنا اطمینان تواس نے اچھے اچھے معمر اور تجر بے کار ڈاکٹر وں کے
چہروں پر بھی سکون نہیں دیکھا تھا وہ دل ہی دل میں اس کی تعریفیں کر رہا تھا۔
باہر برآمدے میں نواب صاحب کی بہن اور نجمہ بیٹھی تھیں ۔ دونوں پریشان نظر آرہی
تھیں کنور سلیم ٹہل ٹہل کر سگریٹ پی رہا تھا۔
” ممی کیاوہ کامیاب ہوجائے گا۔“ نجمہ نے بے تابی سے کہا” مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور
کامیاب ہوجائے گا لیکن کتنی دیر لگے گی؟
” پریشان مت ہو بیٹی۔“ بیگم صاحبہ بولیں ” میرا خیال کہ کافی عرصہ لگے گا ممکن ہے
صبح ہوجائے لہٰذا ہم لوگوں کا یہاں اس طرح بیٹھنا ٹھیک نہیں ۔کیوں نہ ہم لوگ ڈ
رائینگ روم میں چل کر بیٹھیں غالباً کافی اب تیار ہو گئی ہو گی۔ سلیم کیا تم کافی
نہ پیو گے۔“
|