|
” پروفیسر مجھے اس وقت“ سلیم نے حیرت سے کہا۔
” جاﺅ بھئی نیچے جاﺅ“ بیگم صاحبہ بیزاری سے بولیں ۔“کہیں وہ پاگل یہاں نہ چلا آئے۔“
”مجھے حیرت ہے کہ وہ اس وقت یہاں کس لئے آیا ہے۔“سلیم نے نوکر سے کہا۔” کیا تم نے
اسے آپریشن کے متعلق نہیں بتا یا ؟“
” حضور میںنے انہیں ہر طرح سمجھایا۔ لیکن وہ سنتے ہی نہیں ۔“
” خیرچلو دیکھوں کیا بکتا ہے۔“ سلیم نے کہا”اس پاگل سے تومیں تنگ آگیا ہوں“
سلیم نیچے آیا۔ پروفیسر باہر کھڑا تھا اس نے سردی سے بچنے کےلئے اپنے سر پر مفلر
لپیٹ رکھا تھا۔ اورچسڑ کے کالراس کے کانو ں کے اوپر تک چڑھا تھا۔ ان سب باتوں کے
باوجود وہ سردی سے سکڑا جا رہا تھا۔
”کیوں پروفیسر کیا بات ہے؟“ سلیم نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا۔
” ایک غیر معمولی چمکدار ستارہ جنوب کی طرف نکلا ہے۔ “ پروفیسر نے اشتیاق آمیز لہجے
میں کہا”اگر اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتے ہو تومیرے ساتھ چلو۔“
” جہنم میں گئی معلومات “سلیم نے جھنجلا کر کہا۔” کیا اتنی سی بات کےلئے تم دوڑے
آئے ہو۔“
” بات توکچھ دوسری ہے میں تمہیں بہت تعجب خیز چیز دیکھاناچاہتا ہوںا یسی چیز تم نے
کبھی نہ دیکھی ہوگی“اس نے سلیم کا بازو پکڑ کر اسے پرانی کوٹھی کی طرف لے جاتے ہوئے
کہا۔
سلیم چلنے لگا لیکن اس نے لو ہے کی موٹی سلاخ کو نہ دیکھا جو پروفیسر اپنی آستین
میں چھپا ئے ہوئے تھا۔
” کھٹ“ تھوڑی دور چلنے کے بعد پروفیسر نے وہ سلاخ سلیم کے سر پردے ماری۔ سلیم
بغےرآواز نکالے چکرا کر دھم سے زمین پر آرہاپروفیسر حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھکا
اور بے ہوش سلیم کو اٹھاکر اپنے کاندھے پر ڈال لیا بالکل اسی طرح جیسے کوئی ہلکے
پھلکے بچے کو اٹھالیتا ہےوہ تیزی سے پرانی کو ٹھی کی طرف جا رہاتھا۔ یہ سب اتنی
جلدی اور خاموشی سے ہوا وہ نوکر جو ہال میں سلیم کا انتظار کر رہا تھا وہ یہی سوچتا
رہ گیا کہ اب سلیم پروفیسر کو کوٹھی میں دھکیل کر واپس آرہا ہوگا۔
پرانی کوٹھی میں پہنچ کر پروفیسر نے بے ہوش سلیم کو ایک کرسی پرڈال دیا اور جھک کر
سرکے اس حصے کودیکھنے لگا جو چوٹ کی وجہ سے پھول گیا تھااس نے پر اطمینان انداز میں
اس طرح سر ہلایا جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ابھی کافی دیر تک بے ہوش رہے گا پھر اس
حیرت انگیز بوڑھے نے سلیم کو پیٹھ پر لا د کر مینار پر چڑھنا شروع کیا بالائی کمرے
اندھیرا تھا۔ اس نے ٹٹول کر سلیم کو ایک بڑے صوفے پر ڈال کر اور موم بتی جلا کر طاق
پر رکھ دی۔
ہلکی روشنی میں چسٹر کے کالر کے سائے کی وجہ سے اس کا چہرہ اور زیادہ خوفناک معلوم
ہو نے لگا تھا۔ اسنے سلیم کوصوفے سے باندھ دیا پھر وہ دوربین کے قریب والی کرسی پر
بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے نواب صاحب کے کمرے کا جائزہ لینے لگا نواب صاحب کے
کمرے کی کھڑکیا ں کھلی ہوئی تھیں ڈاکٹر اور نرسوں نے اپنے چہروں پرسفید نقاب لگا
لئے تھے۔
ڈاکٹر شوکت کھولتے ہوئے پانی سے ربڑ کے دستانے نکال کر پہن رہا تھا۔ وہ سب آپریشن
کی میز کے گرد کھڑے تھے۔ آپریشن شروع ہونے والاتھا۔
” بہت خوب “ پروفیسر بڑبڑایا ” ٹھیک وقت پر پہنچ گیا لیکن آخر اس سردی کے باوجود
انھوں نے کھڑکیاں کیوں نہیں بند کیں۔“
نواب صاحب کی کوٹھی کے گردوپیش عجیب طرح کی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ چھوٹے
سے لیکر بڑے تک کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بیمار کے کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ بیگم
صاحبہ کا سخت حکم تھا کہ کسی قسم کا شور نہ ہونے پائے لوگ اتنی خامشی سے چل رہے تھے
جیسے وہ خواب میں چل رہے ہیں۔“
|