|
ا یسامعلوم
ہوا جیسے اس کے چہرے پر سے ایک گہری نقاب ہٹ گئی ہو۔و ہ ایک خونخوار بھےڑئےے کی طرح
ہانپ رہاتھا۔
”ان رسیوںکو کھول دو سور کے بچے“ وہ چیخ کر بولا۔” ورنہ میں تمہارا سر پھوڑدوں گا۔“
” دھیرج دھیرج میرے پیارے بچے “ پروفیسر نے مڑ کر پر سکون لہجہ میں کہا۔ کل تک میں
یقینا تم سے خائف تھا۔ مجھے اس کا اعتراف ہے۔لیکن تم اس وقت میری گرفت میں ہو قاتل
سازشی تم بہت خطرناک ہوتے جا رہے ہو۔“
”تم دیوانے ہو قطعی دیوانے“ سلیم نے تیزی سے کہا۔
” شایدا یسا ہی ہو“ پروفیسر نے لاپروائی سے کہا” لیکن میں اتنا دیوانہ بھی نہیں کہ
تمہاری سازشوں کو نہ سمجھ سکوں تم اب تک مجھے ایک بے جان مگر کارآمد اوزار کی طرح
استعمال کرتے آئے ہو۔لیکن آج کی رات میری کیا سمجھے۔“
سلیم کے جسم سے پسینہ پھوٹ پڑا ۔ غصے کی جگہ خوف نے لے لی۔ و ہ اب تک پروفیسر کو
پاگل سمجھتا تھا کہ وہ جدھر اسے لے جاناچا ہتا ہے وہ بغیر سمجھے بوجھے چلا جاتاہے
لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ محتاط رہا اس نے آج تک اپنی اصلی سرگرمیوں کی بھنک بھی پر
فیسر کے کان میں نہ پڑنے دی تھی پھر اسے اس کی سر گرمیوں کا علم کیونکر ہوا وہ خوفز
دہ ضرور تھا لیکن ناامید نہیں کیونکہ اس کی زندگی کے دوسرے پہلو کا علم پروفیسر کے
علاوہ کسی اور کو نہ تھا پروفیسر جو پاگل تھا۔
”تم قتل کی بات کرتے ہو“ سلیم نے سکون کے ساتھ کہا’ ’ خدا کی قسم اگر تم نے یہ رسی
فوراً ہی نہ کھول دی تو میں اپنی اس دھمکی کو پورا کر دکھاﺅں گا۔ جو اکثر تمہیں
دیتا رہتا ہوں میں پولیس کو اطلاع دے دوں گا کہ تم قاتل ہو اپنے اسسٹنٹ کے قاتل“
” میں“ پروفیسر نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔” یہ میں آج ایک نئی اور دلچسپ خبر سن
رہا ہوں ۔“ میں نے یہ قتل کب کیا تھا۔“
” کب کیا تھا“ سلیم نے کہا۔” اتنی جلدی بھول گئے ۔ کیا تم نے اپنے اسسٹنٹ نعیم کو
اپنے بنائے ہوئے غبارے میں بٹھا کر نہیں اڑایا تھا جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔“
پروفیسر خاموش ہو گیا اس کے چہرے پر عجیب قسم کی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی” اور ہاں
اس حادثے کے بعد سے میرا دماغ خراب ہو گیا اور تمہیں اس واقعہ کا علم ہو گیا تھا۔
لہٰذا تم نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کردیامجھ سے نا جائز کاموں میں مدد لیتے رہے
مجھ سے روپیہ اینٹھتے رہے لیکن برخودار شاید تمہیں اس بات کا علم نہیں کہ میں حال
ہی میںاےک سر کاری جاسوس سے مل چکا ہوںتم خوفزدہ کیوں ہو رہے ہو۔ میں نے تمہارے
متعلق اس سے کچھ نہیں کہا میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نعیم میرے غبارے کے
ٹوٹنے سے مرا نہیں بلکہ و ہ اس وقت بھی مدراس کے کسی گھٹیا سے شراب خانے میںنشے سے
چور اوندھا پڑا ہوگا اور مجھے اس بات کا علم بھی ہے کے اس نے جو خطوط مجھے لکھے تھے
تم نے راستے ہی سے غائب کردےئے بہت عرصہ ہوا تمہیں اس کے زندہ ہونے کا ثبوت مل گیا
تھا۔ لیکن تم مجھے پاگل سمجھ کر روپے اینٹھنے کے لئے اندھیرے ہی میں رکھنا چاہتے
تھےکہو سلیم میاں کیسی رہی کیا اب میں تمہیں وہ باتیں بھی بتاﺅ جو میں تمہارے متعلق
بھی جانتاہوں ۔ © ©“
کنور سلیم سہم کر رہ گیا تھا اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے پروفیسر کا پاگل پن
کسی نئے موڑ پر پہنچ گیا ہے جسے وہ اب تک ایک بے ضرر کیچوے سمجھتا رہا وہ آج پھن
اٹھائے اس پر جھپٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
” خیر پروفیسر چھوڑو ان حماقت کی باتو ں کو “سلیم نے کوشش کرکے ہنستے ہوئے کہا”
میری رسیاں کھول دوآدمی بنو تم میرے عزیز ترین دوست ہومیں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں
اس سے بھی بڑی دوربین خرید دوں گا اتنی بڑی کہ سچ مچ ایک شیشے کا گنبد معلوم ہوگی۔“
” ٹھہرو سلیم ٹھہرو“پروفیسر نے دوربین کے شیشے پر جھک کر کہا” میں ذرا بیمار کے
کمرے میں دیکھ لوں ہوں تو ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا ۔
|