|
ایسے خطرناک آپریشنوں میں
کافی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے نو جوان ڈاکٹر نواب صاحب کی جان بچانے
میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن سلیم یہ تو بڑی بری بات ہے اگر نواب صاحب دس بیس برس
اور زندہ رہے تو کیا ہو گاتمہاری وراثت تم تک جلد نہ پہنچے سکے گی۔“
” اس سے کیا ہو تا ہے“ سلیم نے کہا”میں بہرحال ان کا وارث ہوں اور پھر مجھے اس کی
ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا میں کم دولت مند ہوں۔“
خیر خیر تمہاری دولت کاحال تو میں اچھی طرح جانتا ہوں اسی لئے تم ایک بے بس بوڑھے
سے روپے اینٹھتے رہےسنو بیٹے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری تنگدستی اب نواب
صاحب کی موت کی خواہاں ہے اسی لئے میں نے تمہیں تکلیف دی ہے مجھے امید ہے کہ تم ایک
سعادت مند بچے کی طرح اس کا کچھ خیال نہ کروگے کیا تم نے آج ڈاکٹر توصیف کو اسی لئے
شہر نہیں بھیج دیا کہ نو جوان ڈاکٹر سچ مچ پیدل آنے پر مجبور ہو جائے۔“
” کیا فضول بکواس ہے!“ سلیم نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا۔
” اور پھر تم ایک رسی لے کر درخت پر چڑھ گئے۔“ پرفیسر بولتا رہا” کیا تم سمجھتے ہو
کہ میں کچھ نہیں جانتا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ڈاکٹر شوکت بچ کیسے گئے لیکن میں
تمہیں نہیں بتاﺅں گاتم مجھے اندھیرے کی چمگادڑ سمجھتے ہو اور تمہارا خیال یہ بھی
درست ہے ۔اندھیرا مجھ پر سورج کی طرح روشن رہتا ہے میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں
کیا میں نہیں جانتا۔“
” تم کچھ نہیں جانتے“ سلیم نے مردہ آواز میں کہا” یہ محض تمہارا قیاس ہے۔“
” تم اسے قیاس کہہ رہے ہو۔لیکن یہ سو فیصد سچ ہے دیکھو سلیم ہم دونوں ایک دوسرے کو
اچھی طرح جانتے ہیں کیا میں یہ نہیں جانتا کہ ڈاکٹر شوکت کو قتل کردینے کی ایک وجہ
اوربھی ہے جس کا تعلق آپریشن نہیں ۔“
ٍ” کیا“سلیم بے اختیار چونک کر چیخا۔
” ٹھیک ٹھیک “ پرفیسر نے سر ہلایا”تمہاری چیخ ہی اقبال جرم ہے۔“
” کیا تم نے اس خنجر باز نیپالی کو روپیہ دے کر اس کے قتل پر آمادہ نہیں کیا تھا اس
احمق نے دھوکے میں ایک بے گناہ عورت کو قتل کر دیا۔“
”یہ جھوٹ ہے۔“ ” یہ جھوٹ ہے۔“ سلیم بے صبری سے بولا” لیکن تمہیں یہ سب کیسے معلوم
محض قیاس ہے بالکل قیاس ۔“
” مجھے یہ سب کیسے معلوم ہے کہ اس دن تم نے ایک رپورٹر پر گولی چلائی تھی اور وہ
رائفل میرے ہاتھ میں دے کر خود بھاگ گئے تھےمحض اس لئے کہ مجھے پاگل تصور کرتے ہوئے
اس واقعہ کو محض اتفاقیہ سمجھا جائے اور کہو تو یہ بھی بتا دوں گا کہ تم اس رپورٹر
کو کیوں مارنا چاہتے تھے تم اسے پہچان گئے تھے تمہیں یقین ہو گیا تھا کہ اسے تمہاری
حرکتوں کاعلم ہو گیا ہے اس وقت تو وہ بچ گیا تھا لیکن آخر کار اسے تمہاری گولیوں سے
ہلاک ہونا پڑا کیوں ہے نہ سچ۔“
” نہ جانے تم کس کی باتیں کرہے ہو۔“ سلیم نے سنبھل کر کہا۔
” انس پک ٹر فریدی کی۔“پروفیسر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رُک رُک کر کہا۔
سلیم کے ہاتھ پیر ڈھیلے ہوگئے وہ یک لخت سُست پڑ گیا۔
تمہاری دھمکیاں اب میرا کچھ نہیں بگا ڑ سکتیں میں اب تمہارے گال پر اس طرح چانٹا
مار سکتا ہو۔“پرفیسر نے اٹھ کر اس کے گال پرہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔” کیوں نہ
میں ان سب باتوں کی اطلاع نجمہ اور اس کی ماں کودے دوں پولیس کو تو میں اسی وقت
مطلع کردوں گا۔
|