|
اس لئے میں نے پہلے ہی اس کا انتظام کر لیاتھااب کہو کون جیتا؟فریدی
نے قہقہہ لگایا اور سلیم نڈھال ہوکر رہ گیا اسکے چہرے پر پسینے کی بوندیں تھیں اسے
اپنا دل سر کے اس حصے میں دھڑکتا محسوس ہورہاتھا۔ جہاں چوٹ لگی تھی۔ لیکن اسکے ذہن
نے ابھی تک شکست قبو ل نہیں کی تھی۔سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا اس کے قریب ہی پڑا تھا۔
اسنے فریدی کی نظر بچا کر ( جو نہایت اطمینان سے دور بین پر جھکا ہو اتھا۔)اسے پیر
سے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھسکانا شروع کیااب سگریٹ کا جلتا ہو حصہ رسی کے ایک بل سے
لگا ہوا اسے آہستہ آہستہ جلا رہا تھاسلیم نے اپنے دونو ں پیر سمیٹ کر رسی کے سامنے
کر لئے۔ رسی خشک تھی یا سلیم کی تقدیریاور ۔ آگ اپناکام کرہی تھی ۔ فریدی بد ستور
دوربین پر جھکا ہو اتھا دفعتاً سلیم صوفے سمیت دوسری طرف پلٹ گیا۔ فریدی چونک کر اس
کی طرف جھپٹا لیکن اس سے پہلے کہ حیرت زدہ فریدی کچھ کر سکے سلیم رسی کے بلوں سے
آزاد ہوچکا تھا۔
فریدی اس پر ٹوٹ پڑا لیکن سیلم کو زیر کرنا آسان نہ تھا تھوڑی دیر بعد دونوں گتھے
ہوئے ہانپ رہے تھے سلیم کو سست پا کر فریدی کو جیب سے پستول نکالنے کا موقع مل گیا۔
لیکن سلیم نے اس پھرتی کے ساتھ اس سے پستول چھین لیا جیسے وہ اس کا منتظر تھا اسی
کش مکش میں پستول چل گیا فریدی نے چیخ ماری اور گرتے گرتے اس کا سر دوربین سے ٹکرا
گیا وہ بالکل بے حس و حرکت زمین پر اوندھا پڑا تھا
سلیم کھڑا ہانپ رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیاکرےدفعتہ وہ
ٹرانسمیٹر کے سامنے کھڑا ہو کر بری طرح کھانسنے لگا۔ ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے اس
پر کھانسیوں کا دورہ پڑ اہو پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولنے لگا۔
” میں انسپکٹر فریدی بول رہا ہوں ابھی سلیم میری گرفت سے نکل گیا تھا۔ کافی جدو جہد
کے بعد میں نے اس کے پیر میں گولی مار دی اب وہ پھرمیری قید میں ہے میں اسے مقامی
پولیس کے سپردکرنے جا رہا ہوں بقیہ رپورٹ کل آٹھ بجے صبح۔“
اب سلیم نے ٹرانسمیٹر کا تار بیٹری سے الگ کر کے اسے فرش پر پٹخ دیااس کے پرزے
اِدھر ُادھر بکھر گئے
وہ تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا نیچے اتر رہا تھا
انسپکٹر فریدی نے اپنی موت کی خبر شائع کرانے میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھا۔راج
روپ نگر کے جنگلوں میں دشمن سے مقا بلہ کرتے وقت اچانک اس کے ذہن میں یہ تد بیر آئی
تھیوہ خواہ مخواہ اس طرح چیخ کربھاگا۔ جیسے وہ زخمی ہوگیا ہو۔ وہ ہسپتال گیا اور
وہاں چیف انسپکٹر کو بلو اکر اسے کل حالات بتائے اور اس سے مدد مانگی یہ چیز مشکل
نہ تھی۔چیف انسپکٹر نے پولیس کمشنر سے مشورہ کرکے پولیس ہسپتال کے انچارج کرنل
تیواری سے سب معا ملے طے کرلیے۔ لیکن اسے یہ نہ بتایا گیا کہ یہ ڈرامہ کھیلنے کا
مقصد کیا ہےسول ہسپتال سے خفیہ طریقہ پر ایک لاش حاصل کی گئی ۔ پھر اس پر انسپکٹر
فریدی کا میک اپ کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ سلیم دھوکہ کھاگیا۔ ان سب باتوں سے فرصت
پانے کے بعد انسپکٹر فریدی نے بھیس بدل کر اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں ۔
تیسرے دن اچانک کرنل تیواری کا تبادلے کا حکم آگیااو ر اسے صرف اتنی ہی مہلت ملی کہ
اس نے ڈاکٹر توصیف کو ایک خط لکھ دیا۔ انسپکٹر فریدی کو اب تک سلیم پر محض شبہ ہی
شبہ تھااس کی تحقیقات کا رخ زیادہ تر پروفیسرہی کی طرف رہا اس سلسلے میں اسے اس بات
کا بھی علم ہواکہ سلیم پروفیسر کو دھوکے میں رکھ کر اسے اپنا آلہ کاربنائے ہوئے ہے۔
پروفیسر کے متعلق اس نے ایک بالکل ہی نئی بات معلوم کی جس کی اطلاع سلیم کوبھی نہ
تھی وہ یہ کہ پرو فیسر ناجائزطور پرکوکین حاصل کیا کرتا تھا جس طر یقہ سے کو کین اس
تک پہنچا کرتی تھی وہ انتہائی دلچسپ تھا۔ اسے ایک ہفتہ کے استعمال کے لئے کو کین
ملا کرتی تھی۔ کو کین فروشوں کے گروہ کا ایک آدمی ہرہفتے ایک پیکٹ کوکین لا کر
پرانی کو ٹھی کے باغیچے میں چھپا دیا کرتا تھا۔وہیں اس کے دام بھی رکھے ہوئے مل
جاتے تھے دو ایک بار اسے مالیوں نے ٹوکابھی لیکن اس نے انہیں یہ کہہ کر بہلاوا دیا
کہ وہ دوا کےلئے بیر بہوٹی تلاش کر رہاہے۔ فریدی نے فی الحال اس گروہ کو پکڑنے کی
کی کوشش نہ کی کیو نکہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ تھا۔ ڈاکٹر شوکت کے
راج روپ نگر جانے سے ایک دن قبل ہی اس نے کو ٹھی کے ایک مالی کو بھاری رقم دے کر
ملا لیا تھا۔ اس لئے کو ٹھی کے افراد کے متعلق سب کچھ جان لینے میں کوئی خاص دقت نہ
ہوئی۔
|