|
” نواب صاحب کا کیا حال ہے۔“ فریدی نے شوکت سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
” اچھے ہیں تمہیں یاد کر رہے تھے آو ¿ چلو اندر چلیں۔“
نواب صاحب گاو ¿ تکئےے سے ٹیک لگائے انگور کھا رہے تھے۔ فریدی کو دیکھ کر بولے
”آو ¿ آو ¿ میاں فریدی۔ میں آج تمہیں ہی یاد کر رہا تھامیں نے اس وقت تمہیں دیکھا
تھا جب مجھے بولنے کی اجازت نہ تھی آج کل تو میرے بیٹے کا حکم مجھ پر چل رہا ہے۔“
نواب صاحب نے شوکت کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” آپ کو اچھا دیکھ کر مجھے انتہائی مسرت ہے۔“فریدی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد نواب صاحب نے کہا۔” فریدی میاں تمہیں
اس بات کا علم کیونکر ہوا تھا کہ شوکت میرا بیٹا ہے۔“
” میں داستان کا بقیہ حصہ آپکی زبانی سننا چاہتا تھا۔“ فریدی نے کہا۔
”نہیں بھئی پہلے تم بتاو ¿۔“نوا ب صاحب بولے
” میری کہانی زیادہ لمبی نہیں ہےصرف دو لفظوں میں ختم ہوجائے گیجب میں پہلی بار
سلیم سے رپورٹر کے بھیس میں ملا تھااس وقت میں نے آپ کے والد ماجد کی تصویر دیکھ کر
اندازہ لگایا تھا کہ اس کوٹھی کا کوئی فرد ڈاکٹر شوکت کو کیوں قتل کرناچاہتا ہےشوکت
کی شکل ہو بہونوا ب صاحب مرحوم سے ملتی ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ جس بات کا علم
ڈاکٹر شوکت کونہیں تھا اسکا علم سلیم کو کیونکر ہوا۔“
” غالباً میں بے ہوشی کے دوران میں کچھ بک گیا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سلیم
زیادہ تر میرے قریب ہی رہتا تھافریدی میاں یہ ایک بہت ہی پر درد داستان ہے۔ میں
تمہیں شروع سے سناتا ہوںشوکت کی ماں ہمارے خاندان کی نہ تھی۔ لیکن وہ کسی نچلے طبقے
سے بھی تعلق نہ رکھتی تھی۔ ان میں صرف اتنی خرابی تھی کہ ان کے والدین ہماری طرح
دولت مند نہ تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بے حد چاہتے تھے لیکن والد صاحب مرحوم کے
ڈر سے کھلم کھلا شادی نہ کر سکتے تھےلہٰذ ا ہم نے چھپ کر شادی کرلی ایک سال بعد
شوکت پیدا ہوالیکن اس کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی وہ ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو
گئیں ۔ اسی حالت میں وہ دوسال تک زندہ رہےں ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو
جاگیر دارانہ ماحول سے الگ رکھ کر اعلیٰ تعلیم دلائیںوہ ایک رحم دل خاتون تھیںوہ
چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرکے خدمت خلق کرے۔ یہ ان کا خیال
تھا اور وہ بالکل درست تھا کہ جاگیر دارانہ ماحول میں پلے ہوئے بچے کے دل میں
غریبوں کا درد قطعی نہیں ہو سکتا جب وہ دم توڑ رہیں تھیں تو انہوں نے مجھ سے وعدہ
لے لیاتھا کہ اس وقت تک میں شوکت پر یہ بات ظاہر نہ کروں گاجب تک و ہ ان کی خواہش
کے مطابق ایک اچھے کردار کا مالک نہ ہوجائےگا۔پھر انہوں نے شوکت کو سیتا دیوی کے
سپرد کر دیا۔میں خفیہ طور پر سیتا دیوی کی مدد کیا کرتا تھاخدا جنت نصیب کرے اسے
بڑی خوبیوں کی مالک تھی آخر کار اس نے شوکت کے لئے جان دے دی۔شوکت کی ماں کے انتقال
کے بعد میرا دل ٹوٹ گیا اور پھر میں نے دوسری شادی نہیں کی اور دنیایہی سمجھتی رہی
کہ میں ساری زندگی کنوارا ہی رہا۔“
نوا ب صاحب نے پھر شوکت اور نجمہ کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ کر کہا” اب میری ز
ندگی میں پھر سے بہار آگئی ہے اے خدا اے خدا “ ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور ان کی
آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔
” فریدی میاں “ نوا ب صاحب بولے” اس سلسلے میں تمہیں جو پرےشانی اٹھانی پڑی ہیں ۔
انکا حال مجھے معلوم ہے بخدا میں تمہیں شوکت سے کم نہیں سمجھتا تم بھی مجھے اتنے
عزیز ہو جتنے کہ شوکت اور نجمہ۔“
” بزرگانہ شفقت ہے آپکی۔“ فریدی نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا۔
” ہاں بھئی وہ بیچارے پروفیسر کاکیا ہوا کیا و ہ کسی طرح رہا نہیں ہوسکتا۔“ نوا ب
صاحب بولے۔
|