|
شاید نعیم غبارے کو اتارنے کی تد بیربھول گیا تھا یا یہ کہ
اس کی مشین خراب ہوگئی تھی،غبارہ پھر پروفیسر کیدانست میں زمین کی جانب نہ
لوٹاحالانکہ اسے کافی چوٹیں آئی تھیں لیکن گاو ¿ں والوں کی تیمارداری اور دیکھ بال
کی بناءپر بچ گیا۔ پرفیسر ان سب باتوں سے ناواقف تھا۔ وہ خود کو مجرم سمجھ رہا تھا۔
اسی پریشانی میں وہ قریب قریب پاگل ہوگیا۔ اس کے بعداس نے شہر کی سکونت ترک کردی
اور راج روپ نگر میں آگیانعیم نے اسے خط لکھے جو اس کی پرانی قیام گاہ سے پھرتے
پھراتے یہاں راج روپ نگر پہنچے۔ وہ خطوط کسی طرح سلیم کے ہاتھ لگ گئے اور اس طرح
اسے ان واقعات کا علم ہوگیا۔اب اس نے پروفیسر پر اپنی واقفیت کی دھونس جما کر بلیک
میل کرنا شروع کیا۔ مجھے ان سب باتوں کا علم اس وقت ہوا ۔ جب ایک رات چوروں کی طرح
اس کوٹھی میں داخل ہوا اور سلیم کے کمرے کی تلاشی لی۔نعیم کے لکھے ہوئے خطوط مجھے
اچانک مل گئے اور میں معاملات کی تہہ تک پہنچ گیا اور اسی وقت میںاس نتیجہ پر بھی
پہنچا کہ مجھ پر گولی سلیم ہی نے چلائی تھی۔ کیونکہ پروفیسر تو اس رائفل کے استعمال
سے ناواقف تھا میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ہاں تو بات میرے مرنے کی تھی جب میں سلیم
اور ڈاکٹر توصیف سے مل کر واپس جا رہاتھا سلیم نے راستے میںدھوکا دیکر مجھے روکا
اور جھاڑیوں کی آڑ سے مجھ پر گولیاں چلانے لگامیں نے بھی فائر کرنے شروع کردئےے۔اسی
دوران اچانک مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اورمیں نے تہیہ کرلیا کہ مجھے کسی نہ کسی
طرح سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ اب میرا وجود اس دنیا میں نہیں ، ورنہ ہوشیار مجرم
ہاتھ آنے سے رہا۔لہٰذامیں نے ایک چیخ ماری اوربھاگ کر اپنی کار میںآیا اور شہر کی
سمت چل پڑامیں سیدھا ہسپتال پہنچااور وہاں کمپاﺅنڈ میںموٹر سے اترتے وقت غش کھا کر
گر پڑالوگوںنے مجھے اندر پہنچایامیں نے ڈاکٹر کو اپنی ساری اسکیم سے آگاہ کر دیا
اور اپنے چیف کو بلوا بھیجا اسے بھی میں نے سب کچھ بتایا پھر وہاں سے میرے جنازے کا
انتظام شروع ہواقسمت میرے ساتھ تھی۔ اس دن اتفاق سے ہسپتال میں ایک لاوارث مریض مر
گیا تھا۔ میرے محکمہ کے لوگ اسے اسٹریچر پر ڈال کر اچھی طرح ڈھانک کرمیرے گھر لے
آئے پڑوسی اور دوسرے جاننے والے اسے میری ہی لاش سمجھے۔میری موت کی خبر اسی دن شام
کے اخبارات میں شائع ہوگئی تھی۔ پھر میں نے اسی رات حمید کوایک نیپالی کے بھیس میں
ڈاکٹر توصیف کے پاس بھیجا اور اسے تاکید کرادی کہ وہ میری راج روپ نگر میں آمد کے
بارے میں کسی سے کچھ نہ کہے۔لہٰذا یہ بات چھپی رہی کہ اس دن میں راج روپ نگر
گیاتھا۔ اس طرح سلیم دھوکا کھا گیا۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ اس پر شبہ کرنے والا اب
اس دنیا سے چل بسا اور اب وہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنا کام انجام دے سکے گا۔
” میں چاہتا تھا کہ تمہیں کسی طرح راج روپ نگر لے جاو ¿ں ۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر
توصیف سے دوبارہ کہلوا بھیجا کہ وہ جلد از جلد تمہیں راج روپ نگر لے جائے جب تم
وہاں پہنچے تو میں سائے کی طرح تمہارے ساتھ لگا رہاتھا۔تمہاری کار میں نے ہی خراب
کی تھی۔ مجھے یہ پہلے ہی معلوم تھاکہ اس وقت کوٹھی میں کوئی کار مو جود نہیں ہے۔
لہٰذ ا میں نے یقین کر لیا کہ تم اس صورت میں پیدل ہی جاو ¿ گے۔مجھے یہ بھی یقین
تھا کہ سلیم تمہیں نواب صاحب کے آپریشن سے پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کرے گا لہٰذا
میں نے اسے موقع واردات ہی پر گرفتار کرنے کے لئے تمہیں پےدل لے جانا چاہا لیکن اس
کمبخت نے وہ حربہ استعمال کیا جس کا مجھے گمان تک نہ تھا۔ تم واقعی قسمت کے اچھے
تھے کہ وہ سوئی پروفیسر کے ہاتھ سے گر گئی اورتم بچ گئے ورنہ تم ختم ہوجاتے اور
مجھے پتہ بھی نہ چلتا۔اس کے بعد تم قصبے میں چلے گئے اور میں ایک مالی کے خالی
جھونپڑے میں بیٹھ کر پلان بناتا رہا۔یہ تو مجھے تمہاری زبانی معلوم ہوہی گیا تھا تم
شام کو بھی پیدل ہی آو ¿ گے۔اسی دوران مجھے پروفیسر کے بارے میں کچھ اور باتےںبھی
معلوم ہوئیں، مثلاً ایک تو یہی کہ وہ کوکین کھانے کا عادی ہے اور غیر قانونی طریقہ
پر اسے حاصل کرتا ہے لو بھلا باتوں ہی باتوں میں بہکتا چلا جا رہا ہوں۔ باقی حالات
بتانے سے کیا فائدہ ۔ وہ تو تم جانتے ہی ہوں گے۔بہر حال یہ تھی میرے مرنے کی
داستان“
” خدا تمہاری مغفرت کرے۔“ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” تو فریدی بھائی اب تو آ پ کی ترقی ہو جائے گی دعوت میں ہمیں نہ بھو لئے گا ۔
“نجمہ نے مسکر کر کہا۔
” میں ترقی کب چا ہتا ہوں ۔ اگر ترقی ہو گئی تو مجھے شادی کرنی پڑجائے
گی۔
|