|
اس نے ملازمہ کو
اطمینان دلا کر ناشتہ لانے کو کہا۔نو بج گئے لیکن سیتا دیوی نہ اٹھیں۔ اب شوکت کی
پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔اس نے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔ لیکن بے سود اندر سے
کوئی جواب نہ ملا ۔ تھک ہار کر اس نے ایک بڑھئی کو بلوایا۔
دروازہ ٹوٹتے ہی اس کی چیخ نکل گئی۔
سیتا دیوی سر سے پاﺅں تک کمبل اوڑھے چت لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے سینے میں ایک خنجر
اس طرح پیوست تھا کہ صرف ایک دستہ نظر آرہاتھا۔ بستر خون سے تر تھا۔
ڈاکٹر شوکت ایک مظبوط دل کا آدمی ہوتے ہوئے بھی تھوڑی دیر کے لئے بیہوش سا ہوگیا۔
ہوش آتے ہی وہ بچوں کی طرح سسکیاں لیتا ہوا زمین پر گر پڑا۔
سارے گھر میں ایک عجیب سی ماتمی فضا طاری تھی۔ قصبہ کے تھانے پر اطلاع ہوگئی تھی
اور اس وقت ایک انسپکٹر اور دو ہیڈ کانسٹیبل مقتولہ کے کمرے کے سامنے بیٹھے سر
گوشیاں کر رہے تھے۔ خادمہ کے بیان پر انہوں نے اپنی تفتیش کے گھوڑے دوڑانے شروع کر
دئےے تھے۔ ان کے خیال میں وہی پر اسرار آدمی قاتل تھاجو رات کو باغ میںٹہلتا ہوا
پایا گیاتھااور سیتا دیوی رات میں اسی سے جھگڑا کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر شوکت انکی بحثوں
سے قطعی غیر مطمئن تھا۔ جیسے جیسے وہ اپنی تجربہ کاری کا اظہار کر رہے تھے اس کا
غصہ بھی بڑھتا جارہاتھا ویسے بھی وہ اپنے قصبہ کی پولیس کو ناکارہ سمجھتا تھا۔ اسی
لئے اس نے محکمہ سراغرسانی کے انسپکٹر فریدی کو ایک نجی خط لکھ کر بلوایا تھا اور
اس کا انتظار کر رہا تھا۔فریدی ان چند انسپکٹروں میں تھا جو بہت ہی اہم کاموں کے
لئے وقف تھے لیکن ذاتی تعلقات کی بناءپر ڈاکٹر شوکت کو پورا یقین تھاکہ اسے یہ کیس
سرکاری طور پر نہ بھی سونپا گیا تو نجی طور پر اسے اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔
تقریباً دو گھنٹے بعد انسپکٹر فریدی بھی اپنے اسسٹنٹ سارجنٹ حمید کے ساتھ وہا ں
پہنچ گیا۔ نسپکٹر فریدی تیس بتیس سال کا ایک قوی ہیکل جوان تھا ۔اس کی کشادہ پیشانی
کے نیچے دو بڑی بڑی خواب آلود آنکھیں اس کی ذہانت اور تدبر کی آئینہ دار تھیں اس کے
لباس کے رکھ رکھاﺅ اور تازہ شیو سے معلوم ہورہاتھا کہ وہ ایک با اصول اور سلیقہ مند
آدمی ہے۔سارجنٹ حمید کے خدو خال میں قدرے زنانہ پن کی جھلک تھی۔ ا س کے انداز سے
معلوم ہوتا تھا کہ وہ بے جا ناز برداریوں اور اپنے حسن کی نمائش کا عادی ہے۔ اس نے
کوئی بہت ہی تیز خوشبو والا سینٹ لگا رکھا تھا۔ اس کی عمر چوبیس سال سے زیادہ نہ
تھی لیکن اس چھوٹی سی عمر میں بھی وہ بلا کا ذہین تھا۔
اسی ذہانت کی بناءپر ا نسپکٹر فریدی کے تعلقات اس سے دوستانہ تھے۔ دونوںکی آپس کی
گفتگو سے افسری یا ماتحتی کا پتالگانا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔
تھانے کے سب انسپکٹر اور دیوان ان کی غیر متوقع آمد سے گھبرا گئے کیوں کہ انہیں ان
کے آنے کی اطلاع نہ تھی۔ انہیں ان کی غیر ضروری آمد کچھ نا گوار سی گزری۔
”ڈاکٹر شوکت “ فرید نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ” اس نقصان کی تلافی ناممکن ہے
البتہ رسمی طور پر میں اپنے غم کا اظہار ضرور کروں گا۔“
”ا نسپکٹر آج میری ماں مرگئی۔“ شوکت کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔
” صبر کرو تمہیں ایک مضبوط دل کا آدمی ہونا چاہئے۔“ فریدی نے اس کا شانہ تھپکتے
ہوئے جواب دیا۔
” کہیئے داروغہ جی کچھ سراغ ملا۔“ اس نے سب ا نسپکٹر کی طرف مڑ کر کہا۔
” ارے صاحب ! ہم بیچارے بلا سراغ لگانا کیا جانیں۔“ سب انسپکٹر طنزیہ انداز میں
بولا۔
فریدی نے جواب کی تلخی محسوس ضرور کی لیکن وہ صرف مسکر اکر خاموش ہوگیا۔
|