|
” شوکت صاحب ! یہ تو آپ جانتے ہی ہیںکہ میں آج کل چھٹی پر ہوں ۔“ فریدی بولا”اور
پھر دوسری بات یہ کہ عموماًقتل کے کیس اس وقت ہمارے پاس آتے ہیںجب سول پولیس تفتیش
میںناکام رہتی ہے۔“
تھانے کے انسپکٹر کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
ا نسپکٹر فریدی نے اس تغیر کو محسوس کر لیا ور اپنے مخصوص دل آزار اور شرارت آمیز
لہجے میں بولا” لیکن میں ذاتی تعلقات کی بناءپر نجی طور پر اس کیس کو اپنے ہاتھ میں
لوں گا۔“تھانے کے سب ا نسپکٹر کی آنکھوں کی چمک دفعتاً اس طرح غائب ہو گئی جیسے
سورج کا چہرہ سیاہ بادل ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس کا منہ لٹک گیا۔
فریدی نے واقعات سننے کے بعد خادمہ کا بیان لینے کی خواہش ظاہر کی۔ خادمہ نے شروع
سے آخر تک رات کے سارے واقعات دہرادئےے،۔
” کیا تم بتا سکتی ہو کہ را ت میں تم نے ان واقعات کے بعد بھی کوئی آواز سنی تھی۔“
” جی نہیں سوائے اس کے کہ وہ دیوی جی کے بڑبڑانے کی آواز تھی وہ اکثر سوتے وقت
بڑبڑایا کرتی تھیں۔“
” ہوں کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ کیا بڑبڑا رہی تھیں۔“
” وہ کچھ بے ربطہ باتیں تھیں ٹھہرئے یاد کرکے بتا تی ہوںہاں ٹھیک یاد آیا وہ راج
روپ نگرراج روپ نگر چلا رہی تھیں۔ میں نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ کیونکہ میں ان
کی عادت سے واقف تھی۔“
”راج روپ نگر“ فریدی نے دھیرے سے دہرایااور کچھ سوچنے لگا۔
”حمید تم نے اس سے پہلے بھی یہ نام سنا ہے؟“
حمید نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”ڈاکٹر شوکت تم نے۔“
”میں نے تو آج تک نہیں سنا۔“
”کیا سیتا دیوی نے بھی یہ نام کبھی نہیں لیا۔“
”میری یاد داشت میں تو نہیں“ ڈاکٹر شوکت نے ذہن پر زور دیتے ہوئے جواب دیا۔
” ہوں اچھا“ فریدی نے کہا” اب میں ذرا لاش کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔“
وہ سب لوگ اس کمرے میںآئے جہاں لاش پڑی ہوئی تھی۔ چارپائی کے سر ہانے والی کھڑکی
کھلی ہوئی تھی۔اس میں سلاخیں نہیں تھیں ۔ انسپکٹر فریدی دیر تک لاش کا معائنہ کرتا
رہا۔ پھر اس نے وہ چھرا سب انسپکٹر کی اجازت سے مقتولہ کے سینے سے کھےنچ لیا اور اس
کے دستوں پرانگلیوں کے نشانات ڈھونڈنے لگا۔
پھر کھڑکی کی طرف گیا اور جھک کر نیچے کی طرف دیکھنے لگا۔ کھڑکی سے تین فٹ نیچے
تقریباً ایک فٹ چوڑی کارنس تھی جس سے ایک بانس کی سیڑھی ٹکی ہوئی تھی۔ کھڑکی پر پڑی
ہوئی گرد کی تہہ کئی جگہ صاف تھی اور ایک جگہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے نشان۔ ” یہ
تو صاف ظاہر ہے کہ قاتل اس کھڑکی سے داخل ہوا ۔“ فریدی نے کہا۔
” یہ اتنا صاف ہے کہ گھر کی خادمہ بھی یہی کہہ رہی تھی۔“ تھانے کے سب انسپکٹر نے
مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا۔
فریدی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے خنجر کا جائزہ لینے لگا۔
” قاتل نے دستانے پہن رکھے تھے اور وہ ایک مشاق خنجرباز معلوم ہو تا ہے۔“
|