|
سب انسپکٹر کے چہرے پر تمسخر آمیز مسکراہٹ پھیل گئی اور سارجنٹ حمید اسے دانت پیس
کر گھورنے لگا۔
انسپکٹر فریدی نے نہایت سکون کے ساتھ کہنا شروع کیا۔ جس وقت شوکت نے مقتولہ کو
دیکھا وہ سر سے پیر تک کمبل اوڑھے ہوئے تھی ظاہر ہے کے اس سے پہلے کوئی کمرے میں
داخل بھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ دروازہ اند ر سے بند تھا۔ لہٰذا لاش پرپہلے شوکت
ہی کی نظر پڑی ۔ اس لئے کسی اور کا منہ ڈھانکنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا اب ذرا
لاش کے قریب آئےے داروغہ جی میں آپ سے کہہ رہا ہوں ۔ یہ دیکھئے مقتولہ کانچلا ہونٹ
اس کے دانتوں میں دب کر رہ گیاہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل نے ایک ہاتھ سے
مقتولہ کا منہ دبایا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وار کیا تھاپھر فورا ہی منہ دبائے ہوئے
اس کے پیروں پربیٹھ گیا تھا تاکہ وہ جنبش نہ کر سکے اور وہ اس حالت میں اس وقت تک
رہا جب تک مقتولہ نے دم نہ توڑدیا۔ ہونٹ کا دانتوں میں دبا ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ
وہ تکلیف کی شدت میں صرف اتنا کر سکی کہ اس نے دانتوں میں ہونٹ لیا ۔ لیکن قاتل کہ
ہاتھ کے دباﺅ کی وجہ سے ہونٹ پھر اپنی اصلی حالت میں نہ آسکا اور اسی حالت میں لاش
ٹھنڈی ہو گئی۔ قاتل کو اپنے مقصد کی کامیابی پر اتنا یقین تھا کہ اس نے کمبل الٹ کر
اپنے شکار کا چہرہ تک دیکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ ممکن ہے کہ اس نے بعد میں منہ
کھول کر دیکھا بھی ہو مگر نہیں اگر ایسا کرتا تو پھر دوبارہ منہ ڈھانک دینے کی کوئی
وجہ سمجھ نہیں آتی۔“
” کیا یہ ممکن نہیں کی یہ خود کشی کا کیس ہو۔“ سب انسپکٹر نے پھر اپنی قابلیت کا
اظہار کیا۔
” جناب والا “ سارجنٹ حمید بولا ” اتنی عمر آئی لیکن کمبل اوڑھ کر آرام سے خنجر
گھونپ لینے والا ایک بھی نہ ملا کہ میں اس کی قدر کر سکتا۔“
سب انسپکٹر نے جھینپ کر اپنا سر جھکا لیا۔
انسپکٹر فریدی ان سب باتوں کو سنی ان سنی کر کے ڈاکٹر شوکت کو مخاطب کر کے بولا۔
” ڈاکٹر تمہاری جان خطرے میں ہے۔ ہر ممکن احتیاطی تدابیر کرو۔ یہ پائلٹ تمہارے ہی
قتل کے لئے بنایا گیا تھا ۔ سوچ کر بتاﺅ کیا تمہارا کوئی ایسا دشمن ہے جو تمہاری
جان تک لے لینے میں دریغ نہ کرے گا۔“
” میری دانست میں تو کوئی ایسا آدمی نہیں ۔آج تک میرے تعلقات کسی سے خراب نہیں
ٹھہرئےے آپ کو یاد ہوگا کہ میں نیپالی خنجر کے تذکرے پر بے اختیار چونک پڑا تھا
تقریباً پندرہ یوم کا تذکرہ ہے کہ ایک رات میں ایک بہت ہی خطرناک قسم کا آپریشن
کرنے جا رہا تھا کہ ایک اچھی حیثیت کا نیپالی میرے پاس آیا اور مجھ سے درخواست کی
کہ میں اسوقت ایک مریض دیکھ لوں ۔ جس کی حالت خطرناک تھی۔ میں نے معذوری ظاہر کی وہ
رونے اور گڑ گڑانے لگا لیکن میں مجبور تھا کیونکہ پہلے ہی سے ایک خطرناک کیس میرے
پاس تھا۔ خطرہ تھا کہ اسی رات اس کا آپریشن نہ کیا گیا تو مریض کی موت واقع ہوجائے
گی آخر جب وہ نیپالی مایوس ہو گیا تو مجھے برا بھلا کہتے ہوئے واپس چلا گیا۔“
دوسرے دن جب میں ہسپتال جا رہا تھا تو چرچ روڈ کے چوراہے پر پیٹرول لینے کے لئے رکا
تو وہاں مجھے وہی نیپالی نظر آیا مجھے دیکھ کر اس نے نفرت سے برا سا منہ بنا یا اور
اپنی زبان میں کچھ بڑبڑاتا رہا۔ پھر میری طرف مکا تان کر کہنے لگا۔
” شالا ہمارا آدمی مرگیا اب ہم تمہاری خبر لے لے گا“
میں نے ہنس کر مو ٹر اسٹارٹ کی ۔
” ہوں اچھا۔“ فریدی بولا ” اس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو۔“
” یہ ذرا مشکل ہے کیونکہ مجھے سارے نیپالی ایک ہی جیسی شکل و صورت کے لگتے ہیں۔“
ڈاکٹر شوکت نے جواب دیا۔
” خیر اپنی حفاظت کا خاص خیال رکھو اچھا داروغہ جی میرا کام ختم ڈاکٹر شوکت میں نے
تم سے وعدہ کیا تھا کہ اس کیس کو مےں اپنے ہاتھ میں لوں گا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ
بعض وجوہ کی بناءپر ایسا نہ کر سکوں گا میرا خیال ہے کہ داروغہ جی بہ احسن و خوبی
اس کام کو انجام دیں گے اچھا اب اجازت چاہوں گا ہاں ڈاکٹر ذرا کار تک چلو میں
تمہارے تحفظ کے لئے تمہیں ہدایت دینا چاہتا ہوں“
|