|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
بی جی اکیلا نہیں آیا، اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی۔ گوری
چٹی فربہ عورت جو کسی لکھ پتی کی بیٹی تھی۔جس کا گول مول چہرہ کسی قسم کے اظہار سے
مبرا تھا جس کے دل میں جذبات کے لئے جگہ نہ تھی۔ جو اس ٹھوس اور مادی دنیا میں پیدا
ہوئی اور اسی دنیا سے تعلق رکھتی تھی۔
ایسے اونچے اور امیر گھرانے میں شادی ہوجانے پر سب نے جی بی کو مبارکباد دی۔ اس کی
قسمت پر رشک کیا۔
میں لیلیٰ کو بھی جانتا تھا اور جی بی کو بھی یہ محض اتفاق تھا کہ وہ دونوں اس وقت
رقص گاہ میں تھے۔ جی بی میرا پرانا دوست تھا جو میرے ساتھ بیٹھا تھا اور پی رہا تھا
اور یہ لیلیٰ وہ جینی تھی جو میرے سامنے اپنے خاوند کے ساتھ رقص کر رہی تھی۔
لیلیٰ کو بدستور چھیڑا جاتا۔طعنے دئیے جاتے۔ سب اس کا مذاق اڑاتے۔ ایک روز ہم نے
سنا کہ وہ کالج چھوڑ کر گھر چلی گئی۔ کچھ دنوں تک اس کا انتظار کیا گیا لیکن وہ
واپس نہ آئی۔ آہستہ آہستہ اس کی باتیں بھی بھولتی گئیں۔ کچھ عرصہ کے بعد لیلیٰ کا
ذکر ایک پرانی بات ہو گئی۔
ایک دن وہ کہیں سے آکر کالج میں داخل ہوئی۔ اب وہ بالکل بدلی ہوئی تھی۔ اب وہ
شرماتی لجاتی سہمی ہوئی لیلیٰ نہیں بلکہ شوخ و بے باک جینی تھی ۔ یہ نیا نام اس نے
خود اپنے عیسائی نام سے چنا تھا۔ وہ کالج کے قریب ہی ایک عیسائی کنبے میں رہتی۔ صبح
صبح جب گردن اونچی کئے نگاہیں اٹھائے سائیکل پر آتی تو لڑکے ٹھٹھک کر رہ جاتے۔ ہر
وقت اس کے لبوں پر نہایت بے باک مسکراہٹ ہوتی۔
یونین کا جلسہ ہے تو جینی تقریر کر رہی ہے۔ ڈراما ہے تو وہ ضرور حصہ لے گی۔ مباحثہ
ہے تو جینی اچھے اچھوں کی دھجیاں اڑا دے گی۔ اس کی دلیری اور صاف گوئی سے لوگ ڈرتے
تھے۔
جینی کی بے باکی کو سراہاجانے لگا اور سب اسے عزت کی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
ڈے یونین کا صدر تھا، وہ دبلا پتلا سا بنگالی لڑکا تھا اس میں صرف یہ خوبی تھی کہ
وہ کئی سال سے یونین کا صدر تھا۔ میری اس کی جان پہچان تب سے ہوئی جب وہ ہوسٹل میں
میرا پڑوسی بنا۔ اس کی شاعرانہ باتیں، اس کے انوکھے نظرئیے، اس کا حساس پن ، وائلن
پر غمناک نغمے....یہ سب مجھے اچھے معلوم ہوئے لیکن مجموعی طور پر بطور انسان کے میں
نے اسے کبھی بھی پسند نہیں کیا ۔ ویسے اس میں کوئی نمایاں عیب یا خامی نظر نہیں آئی
شاید یہ اس کا اجڑا ہوا سا حلیہ، اس کی آنکھوں کی مجرمانہ بناوٹ، اس کے چہرے کافاقہ
زدہ اظہار تھاجو مجھے ہمیشہ اس سے دور رکھتا۔
کبھی کبھی شام کو بھی اسے ہمراہ لے جاتا۔ اس طرح اس کی جینی سے ملاقات ہوئی۔ غالباً
ڈے کی سب سے بڑی خوبی اس کاانکسار تھا۔ اسے اپنی کمزوریوں کا ہمیشہ احساس رہتا۔بعض
اوقات تو وہ اس قدر کسر نفسی سے کام لیتا کہ تر آنے لگتا۔ یوں معلوم ہوتا جیسے وہ
رحم کا طالب ہے۔ شروع شروع میں شاید جینی کو اس کی یہی ادا بھا گئی۔
وہ جینی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ پھر جیسے جینی بھی اس کی جانب ملتفت
ہوتی گئی۔ جب وہ وائلن پر درد بھرے نغمے سناتا تو اس کی نگاہیں جینی کے چہرے پر جم
جاتیں۔نغمے کی پرواز نہایت مختصر ہوتی۔ ڈے کی انگلیوں سے لے کر جینی کے دل تک....؟
جب وہ دونوں فلسفے کی کتابیں ہاتھ میں لئے بحث میں مصروف ہوتے تو اکثر بہک بہک جاتے
، آنکھوں آنکھوں میں کچھ اور گفتگو ہونے لگتی۔
ان دونوں کی دوستی اشاروں اور کتابوں کی حدود سے نکل کر کھلم کھلا ملاقاتوں تک پہنچ
چکی تھی۔ جینی کو بنگالی موسیقی سے لگاؤ ہو چلا تھاوہ بنگالی زبان سیکھ رہی تھی۔
جب وہ بالوں میں پھول گاکر ساڑی کو ایک خاص وضع سے پہن کرنکلتی تو بالکل بنگالی
لڑکی معلوم ہوتی۔کالج کی کئی لڑکیاں اسے دیکھ کر بالوں میں پھول لگانے لگیں۔
ان دنوں ہم ڈراما کھیل رہے تھے، دوپہر سے ریہرسل شروع ہو جاتی شام بھی اکٹھے گزرتی۔
|