|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
اکثر میں اسے گھر چھوڑنے جاتا، اس کے کمرے کی زیبائش خوب ہوتی، کسی روز تو یوں
معلوم ہوتا جیسے کمرہ نہیں جنگل ہے۔ دیواروں پرگہرا سبز وال پیپر ہے جس پر درخت اور
گھنی جھاڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ گلدانوں میں لمبی لمبی گھاس اور بڑے بڑے پتے ہیں، سبز
قمقمے روشن ہیں، فرش پر بچھے ہوئے قالینوںکے نقش و نگار، دیوار سے ٹنگی ہوئی
تصویریں ، سبزی مائل پردے، گملوں میں رکھے ہوئے پودے.... یوں معلوم ہوتا جیسے
درندوں کی یہ تصویریں ابھی متحرک ہو جائیں گی پر کسی روز سب کچھ زرد ہوتا۔ دیواریں،
پردے غلاف ، قالین، قمقموں کے شیڈ، گلدانوں میں صحرائی پھول اور خشک ٹہنیاں ہوتیں،
انگیٹھی کے سامنے ریت کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے۔ خیالات کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ۔ تصور
میں لق و دق صحرا پھرنے لگتا۔ تاروں کی چھت تلے حدی خوانوں کا نغمہ گونجنے لگتا۔
پھر کسی روز برف باری کے نظارے آنکھوں کے سامنے آجاتے، یہی آرائش کبھی طوفان زدہ
سمندر کی یاد دلادیتی۔ جھاگ اڑاتی ہوئی چنگھاڑتی لہریں، ہوا کے تندو تیز تھپیڑے
اورآندھیوں میں پتے کی طرح کانپتا ہوا سفینہ....!
اس کے کمرے میں کبھی ایک جیسا گلدستہ میں نے دو مرتبہ نہیں دیکھا۔ گلدان میں بڑے
بڑے پھول بھی ہیں۔ شوخ پھول بھی ہیں۔لیکن صرف ننھی منی کلیاں نمایاں ہیں، باقی سب
رنگ آپس میں گھل مل کر کھو گئے ہیں ۔ کبھی غنچے، کلیاں، پھول سب کہیں جا چھپے ہیں،
صرف خوشنما وضع کے پتے سامنے آگئے ہیں، اس کے ترتیب دئیے ہوئے گلدستوں کو دیکھ کر
مجھے حیرت ہوتی ےہ کہ ایسے حسین و جمیل پھول بھی آسمان تلے کھلتے ہیں جنہیں گلشن
میں نگاہ پہچانتی تک نہیں۔
ایک پروفیسر کی تبدیلی پر باغ میں پارٹی ہوئی طے ہوا کہ وہیں شام کو بارہ دری میں
چھوٹا سا ڈرامہ بھی کھیلا جائے گا۔ جینی کو المیہ پارٹ ملا ۔ وہ دن اس نے اکیلے
گزارا۔ کسی سے بات نہیں کی دن بھر اداس رہی لیمپوں کی روشنی میں ڈراما شروع ہوا۔
جینی نے اپنا گانا باکل آخر میں رکھا۔ لیمپ بجھا دیے گئے۔ سب نے دیکھا کہ درختوں کے
جھنڈ سے چاند طلوع ہو رہا تھا وہ ایک بنگائی نظم گا رہی تھی جس میں چودھویں کے چاند
کو مخاطب کیا گیا تھا۔ڈے وائلن بجا رہا تھا۔ وہ سادا سا گیت اور وائلن کا تھرتھراتا
ہوا نغمہ اس کی انگلیوں کی جنبش جسم کے لوچ اور گھنگرو کی تال پر چاند تارے ناچنے
لگے پھر جیسے مندروں میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔دیوداسیاں سنگار کیے کنول کے پھول تھامے
آگئیں ۔ پجاریوں کے سر جھک گئے۔ فضاؤں میں تقدس برسنے لگا۔ چراغوں سے دھواں اٹھا،
دھند بن کر چھا گیا۔ سب کچھ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔صرف جینی رہ گئی اور اس کا
محبوب.... پجاری اور دیوتا۔
یہ غنائیہ باغ کی اس چاندنی رات میں ختم نہیں ہوا۔ ساز اور لے دیر تک ہم آہنگ رہے۔
ڈے نے ان پیار بھرے جذبات کا اظہار کردیا۔ یہ بھی کہاکہ مرتے دم تک وہ جینی سے اسی
شدت کے ساتھ محبت کرتا رہے گا۔ اس نے اپنے والدین کو سب کچھ لکھ دیا ہے۔ عنقریب اس
کی والدہ آئیں گی اور جینی سے ملیں گی۔ پھر وہ جینی کو رسم کے مطابق سنہرا ہار دے
گا۔ جس میں دل کی شکل کا لاکٹ پرویا ہوا ہو گا۔ ان دونوں کو ایک بہت بڑی قوت نے آپس
میں ملا دیا ہے۔ آرٹ نے دونوں۔ وہ دونوں آرٹسٹ ہیں انسان فنا ہو جاتے ہیں آرٹ فنا
نہیں ہوتا۔ آرٹ جاودواں ہے۔
میں نے اس کے کمرے میں ساز دیکھے، معلوم ہوا کہ وہ ہندوستانی موسیقی سیکھ رہی ہے۔
مغربی موسیقی سے وہ شناسا تھی میں نے اسے جانے پہچانے نغمے گنگناتے سنا تھا۔ پیانو
پر اس کی انگلیاں خوب چلتی کئی مرتبہ یوں ہوا کہ ریڈیو پر آرکسٹرا سمفنی بجا رہا ہے
اور جینی مجھے سمجھا رہی ہے کہ سمفنی ایک نغمہ نہیں مختلف نغموں کا مرکب ہے۔ ایسے
نغمے جو مختلف کیفیتوں کوظاہر کرتے ہیں اور یہ کیفیتیں بغیر کسی تسلسل کے آتی ہیں۔
رنج و مسرت، انبساط و حسرت آشامیاں، شک، وسوسے، امید و بیم، اعتراف غم، ہماری
مسرتیں کبھی زنج کی آمیزش سے خالی نہیں ہوتی، اسی طرح غم کی گھٹائیں بھی اکثر بہجت
کی کرنوں سے جگمگا اٹھتی ہیں۔ انسان کے دل میں کوئی جذبہ مکمل اور دیرپا نہیں ہوتا۔
یہ کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں.... تبھی سمفنی میں اتنے اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور کئی
کئی گتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
میں نے اسے ہندوستانی راگ راگنیوں کے کچھ ریکارڈ دئیے جنہیں اس نے بڑے شوق سے سنا۔
اسے یہ نغمے نہایت دلکش معلوم ہوئے۔ اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہ سب راگ مختلف جذبوں
اور کیفیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
میں نے دربار ی کی تشریح کی کہ جیسے ایک بہت بڑا ہال ہے، سامنے تخت پر بادشاہ بیٹھا
ہے۔ قندیلیں روشن ہیں، فانوس جگمگا رہے ہیں۔
|