|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
ہم نے یہ کیاوہ کیا ‘میرے کوٹ کے کالر سے جو بال چسپاں ہے
وہ جینی کا ہے ۔ یہ تصویر جینی نے مجھے دی تھی ۔ میرے رومال پر جو سرخی ہے وہ جینی
کے ہونٹوں کی ہے ۔
پچھلے سال سیلاب آیا ۔ لوگ بے گھر ہوگئے ‘ قحط پڑا ۔ جینی نے کچھ لڑکوں ٬ لڑکیوں کو
ساتھ لیا گاؤں گاؤں پھر کہ مصیبت زدہ مخلوق کی مدد کی ٬ امیروں سے فلرٹ کرکے
چندہ اکٹھا کیا ۔اپنی صحت اور آرام کا خیال نہ رکھا ٬ رات دن محنت کی کئی مرتبہ
بیمار ہوئی کچھ اوباش قسم کے لوگ محض جینی کی وجہ سے محتاجوں کی امدادپر تیار ہوگئے
۔ اسے چھیڑا ٬ تنگ کیا۔ ایک شام بہانے سے اپنے ساتھ لے گئے اسے شراب پلانی چاہی
جینی نے گروہ کے سرغنے کے بال نوچ لئے اس کا منہ طمانچوں سے لال کردیا ۔وہ ایسے
گھبرائے کہ اسی وقت جینی کوواپس چھوڑ گئے ۔
پھر کسی نے جینی کی تصویر اخباروں میں نکلوا دی ٬ اس کی تعریف بھی شامل تھی ۔ سب نے
یہی سمجھا کہاس سستی شہرت کی غرض سے جینی نے لوگوں کی مدد کی تھی ۔
پھر ایسااتفاق ہوا کہ ایک تبادلے نے مجھے جینی کے قریب پہنچادیا محض چند گھنٹوں کی
مسافت تھی ۔ ہردوسرے تیسرے ہفتے میں اسے ملنے سچ مچ اب وہ پرانی جینی نہیں رہی تھی
پہلے سے کہیں تندرست اور چست معلوم ہوتی تھی اس کے چہرے پر تازگی تھی ‘ نکھارتھا‘
ہونٹوں میں رسیلا پن اور رخساروں پر سرخی آچکی تھی ۔ اب وہ اک شعلہ فروزاں تھی ۔ وہ
طرح طرح سےمیک اپ کرتی شوخ و بھڑ کےلئے لباس پہنتی ۔ جگمگ جگمگ کرتے ہوئے زیور قسم
قسم کی خو سبوئیں ۔ وہ ہر موضوع پر بلا دھڑک گفتگو کرسکتی تھی ۔ کلیوں اور رقص
گاہوںمیں اسے باقاعدگی کے ساتھ دیکھا جاتا ۔ ہفتے بھر کی شامیں پہلے ہی مختلف
مصروفیتوںکےلئے وقف ہوجاتیں پرانی سیدھی سادی جینی کی جگہ اس شوخ شنگلڑکی کو دیکھ
کر میں کچھ چڑ سا گیا یہ جذبہ محض حسنہ و رشک کا جذبہ تھا شاید میں برداشت نہیں
کرسکتا تھا کہ گفتگو کرتے وقت مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ وہ مجھ سے زیادہ جانتی
ہے ۔ ہر بحث میں وہ ہرادے ۔ تاش کھیلتے وقت میںبغلیں چھانگنے لگوں ۔ رقص گاہ میں
بعض دفعہ مجھے ایک لڑکی بھی نہ ملے ٬ اور اس کےلئے بیسیوں لڑکے بے قرار ہوں ۔ وہ
ایسی چیزوں کا ذکر کرتی رہے جن کا مجھے شوق تو ہے لیکن ان تک پہنچ ذرا مشکل ہے ۔شام
کو اس کے ہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا ۔ ان میں زیادہ تعداد عشاق کی ہوتی جو طرح طرح سے
اپنی محبت کا اظہار کرتے شادی حضرات اپنی غمگین ازدواجی زندگی کا رونا رویا کرتے کہ
کس طرح قدرت نے ان کو دغادی اور نہایت بد مذاق اور ٹھس طبیعت کی رفیقہ پلے باندھ دی
۔ اب ان کےلئے دنیا جہنم سے کم نہیں ۔ اب یہ عذاب برداشت نہیں ہو سکتا ۔ خود کشی کے
سوااور کوئی چارہ نہیں لیکن اس سیاسہ خانے میں امید کی ایک نورانی کرن نظر آتی
ہے.... وہ ہے جینی ۔
پر مغز اور ذہین قسم کے لوگ اکثر سیاست اور ادب پربحث کرتے ۔ کارل مارکس فارائیڈ
اور مولانا روم کے تذکرے چھیڑتے ٬ سیاست دانوں کی غلطیاں گنواتے ٬ مشاہیر پر
تنقیدیںکرتے ٬ بے لوث اور سچی دوستی کا دم بھرتے لیکن موقعہ پاکر عشق بھی جتا دیتے
۔
ایک طبقہ نفاست پسند اور نازک اندام لوگوں کا تھا ۔ یہ لوگ ہر وقت اپنی کمزوریاں
گنواتے رہتے اپنی بیماریوں کا ذکر کرتے اپنے آپ کو بے حد ذلیل اور کم تر سمجھتے ۔
بار بار جینی سے پوچھتے ....اگرتمہیں برا معلوم ہوتا ہوتو میں آئندہ نہ آیاکروں ۔
اگرچہ ایسا کرنے سے مجھے قلبی ٬ جگری اور روحانی صدمہ پہنچے گا ....مگر ہر شام کو
آدھمکتے ۔
کئی ایسے شرمیلے بھی تھے جو چھپ چھپ کر خطوط لکھتے ۔ جینی پر نظمیں کہہ کر اسے
بدنام کرتے ٬ سامنے آتے تو شرما شرما کر برا حال ہوجاتا ۔
سب سے گھٹیا وہ عاشق تھے جو اپنے آپ کو جینی کا بھائی کہتے ۔ بھائیوں کی سی دلچسپی
لیتے ۔ اس کی حفاظت اور بہبودگی کے خواہاں رہتے لیکن دل میں کچھ اور سوچتے رہتے ۔
مجھے یہ تماشا دیکھ کر غصہ آتا ۔ آخر یہ لڑکی چاہتی کیا ہے کہ سب کے سب تو اسے پسند
آنے سے رہے ‘سارے ہجوم کوبرخاست کرکے ان میں سے ایک دو سے ملتی رہا کرے ۔
|