|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
کینری سے میں سمندر پار ملا ۔ وہ ہندوستانی تھا لوگ اس کی حرکتوں کی وجہ سے اسے
کینرانووا کہتے اسی سے یہ نام پڑگیا ۔ پہلی پہاڑوں میں ایک کیمپ میں ہوئی ہم نے
قصبے سے کچھ شہریوں کو کھانے پربلایا ہواتھا ۔ خیمے میں باتیں ہورہی تھیں کہ وہ ایک
روسی افسر سے لڑ پڑا ۔ لڑائی کی وجہ ایک روسی لڑکی تھی کینری نے فوراً اسے ڈویل کی
دعوت دی اپنے ریوالور سے چار گولیاں نکال لیں اور روسی سے بولا ہم اسے باری باری
اپنے کان سے چھوڑکر چلائیں گے ۔ اس میں صرف دو گولیاں ہیں ....جس کی قسمت میں گولی
لگی ہو گی اس کے دماغ میں سے نکل جائے گی ۔ روسی پئے ہوئے تھا فوراً راضی ہوگیا ۔
پہلا فائر کینری نے اپنے آپ پر کیا ‘ وہ خانہ خالی تھا ۔ دوسرا فائر روسی نے کیا ‘
کچھ نہ ہوا کینری تیسرا فائر کر چکا تھا تو ہم نے بڑی مشکلوں سے انہیں علیحدہ
کیاروسی کو یقین نہ آتا تھا کہ ریوالور میں گولیاں ہیں اس نے یونہی لبلبی دبادی ‘
دھماکہ ہوا ۔ گولی خیمے کی دیوار چیر گئی ۔
اس کا تبادلہ ہوا ‘ وہ ہمارے کیمپ میں آگیا ۔ہم دونوں جلد دوست بن گئے ۔ شہر کے
حاکم نے ہمیںدعوت دی ‘ ہم دونوں گئے ۔ نہایت دلچسپ پروگرام تھا ۔ آغا نے کینری کا
تعارف ایک نہایت خوبصورت ایرانی لڑکی سے کرایا ۔ کسی لڑکی سے رات کو ملنے کا وعدہ
کیا تھا ۔ سردیوں کی اندھیری رات تھی کیمپ وہاں سے سو میل کے لگ بھگ تھا ۔ ہمیں سب
نے منع کیا کینری کا وعدہ تھا ۔ کیوں کر پورا نہ ہوتا ۔ ہم جیپ میںروانہ ہوئے تو
ہلکی ہلکی برفباری ہورہی تھی ۔ پہاڑوں کی پیچیدہ دشوار گزار سڑک برف سے سفید ہوچکی
تھی ہم اتنی تیزیسے جار رہے تھے کہ موڑوں پر جیپ ہوا میں اٹھ جاتی ۔ راستے بھر وہ
اپنی محبوبہ کے لافانی حسن کی تعریفیں کرتا رہا جب ہم وہاں پہنچے تو دعوت ختم ہوچکی
تھی ‘ شراب کا دور چل رہا تھا ۔ لڑکی منتظر ملی ‘ کینری نے میرا تعارف کرایا ۔ ان
دنوں میں بے حد اداس تھا مہینوںسے مجھے کسی دوست یا عزیز کا خط نہیں ملا تھا میں نے
بڑی جذباتی قسم کی گفتگو شروع کردی اسے یہ باتیں اچھی معلوم ہوئیں ہم ایک گوشے میں
جابیٹھے کینری ایک دو بار ہمارے پاس آیا لیکن جلد اٹھ کر چلا گیا ۔ جب لوگ جانے لگے
تو اس نے مجھے ایک طرف بلا کر کہا.... ” میں کیمپ میں جارہاا ہوں ‘ تھوڑی دیر تک
تمہارے لئے جیپ بھجوادوں گا ۔“
” اور یہ لڑکی “ ....میں نے حیران ہوکر پوچھا ۔ ” یہ اب تمہاری ہے ....میں یاروں کا
یار ہوں ۔ میں تمہارے چہروں کا مطالعہ کرتارہا ہوں ۔ میں نے تم دونوں کی آنکھوں میں
اس روشنی کی چمک بھی دیکھی ہے جو پہلی ملاقات پر بلاوجہ پیدا نہیں ہوتی ۔ میں اسے
چاہتا ضرور ہوں ۔ لیکن تم بھی میرے دوست ہو ۔“
اس کی شخصیت عجیب تھی ‘ نہ اسے کسی خطرے کا احساس تھا نہ کسی مصیبت کا ڈر وہ ہمیشہ
کام کر چکنے کے بعد یہ سوچتا کہ یہ کام اسے کس طرح کرنا چاہیے تھا ۔ اس کے مزاج میں
بلا کی تندی اور گرمی تھی کیسی ہی آفت آن پڑے وہ کبھی نہ گھبراتا ذرا ذرا سی باتوں
پر بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے کو تیار ہوجاتا ۔ اسے سکون سے نفرت تھی اسے سے لڑ ۔ اس
سے جھگڑے۔ محاذ سے واپس آیا ہے توڈوئل لڑ رہا ہے ‘جوئے میں آج ہزاروں جیتے تو کل سب
ہار دیئے ۔
سب اس کے کامیاب معاشتوں پررشک کرتے ٬ اس کامیابی کا راز پوچھتے وہ سر ہلا کر کہتا
یہ تو کچھ بھی نہیں ٬ ہزاروں محبتیں ایسی بھی تھیں جو ادھوری رہ گئیں ٬ جو کبھی بھی
نہ پنپ سکیں ۔ جنہوں نے باربار میرا دل توڑا ۔
ہمارے قریب ایک چھوٹا سا خوش نما قصبہ تھا ....گلشن.... آس پاس کے باشندوں میں
کینری شہنشاہ گلشن کے نام سے مشہورتھا ۔
پہلے کبھی اس پر قتل کا مقدمہ بن گیا تھا ٬ موت کی سزا تھی ٬ پھر عجیب سے حالات میں
وہ بری ہوگیا ۔ آزاد ہوکر اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ ہمیشہ زندگی کو ایک نئی زندگی
سمجھے گا جو اسے تحفتاً ملی ہے ٬ اس زندگی کا گزشتہ زندگی سے واسطہ نہیں وہ ہمیشہ
مسرور رہے گا ٬ آزاد رہے گا جو چیز نہ پسند ہوئی اسے فنا کردے گا ٬ جو بھاگنی اس پر
چھا جائے گا ۔
محض اتفاق تھا کہ ایسا شخص زندگی کی شاہراہ میں جینی سے ملا۔۔
|