|
جینی
(شفیق الرّحمٰن)
وہ یونہی آوارگی میں مرنا چاہتا تھا لیکن بڑی مشکلوں سے جینی نے اسے سینی ٹوریم
بھجوایا ۔ فالتو خرچ برداشت کرنے کےلئے وہ دن بھر دفتر میں کام کرتی ‘ رات کو ٹیوشن
پر لڑکیوںکو پڑھاتی لگاتار مشقت نے اسے کمزور کردیا ۔ وہ بیمار رہنے لگی وقت گزتا
گیا ایک دن اسے معلوم ہوا کہ شاعر صرف اسی کے لئے نظمیں نہیں کہتا اس کے تخیل
میںکوئی اور بھی شریک ہے ....یہ سینی ٹوریم کی ایک نرس تھی جسے وہ بعد میں ملا ۔
جینی نے اس افواہ پرتوجہ نہ دی‘ یونہی کسی نے اڑا دی ہوگی ۔وہ وہاں رات دن ایک سے
ماحول میں رہ رہ کر تھک گیا ہوگا اسے تفریح بھی تو چاہیے کسی سے ہنسنے بولنے میں
کوئی حرج نہیں ۔ جب وہ اس سے ملنے جاتی تو نرس کےلئے بھی تحائف لے جاتی ان دونوں کی
دوستی پر اس نے کبھی شبہ نہیں کیالیکن یہ افواہ محض افواہ نہیں رہی ۔ شاعر سینی
ٹوریم سے تندرست ہور آیا تو اس نے شادی کرلی ۔‘ نرس کے ساتھ ۔ جینی پھر بھی اس سے
ملتی رہی اسے روپے دیتی رہی۔ آخر نرس نے ان ملاقاتوں پر اعتراض کیا کہ جینی جیسی
لڑکی سے ملنا بدنامی مول لینا ہے ۔ شاعر نے اس اعتراض کو سر آنکھوں پر لیا ور جینی
سے ملنا چھوڑ دیا ۔ موقع ملنے پر وہ اسے بدنام بھی کرتا اپنے کارنامے سناتا جینی کے
پرانے عاشقوں کے قصے لے بیٹھتا ۔
وہ کہانی سنا چکیتو میںنے اسے بتایا کہ ہم پرانے دوست ہیں ۔ دوستی عظیم ترین رشتہ
ہے خلوص پر میرا ایمان ہے ۔ میں انسانی کمزوریوں سے ہرگز منکر نہیں ۔ شاید مجھے
اچھے برے کی تمیز نہ ہو لیکن ان جذبات کی قدر کرتا ہوں ‘ جن میں خلوص کار فرما
ہوخواہ ان جذبات کا انجام کیسا ہی ہو۔ زندگی میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ذہنی
کیفیتیں بھی دیرپا نہیں ہوتیں لیکن وہ جذبات جو اپنے وقت پرصادق تھے ہمیشہ صادق
رہتے ہیں ۔ اس لئے وہ مدوجزر جو تمہاری زندگی میں آئے ناگزیر تھے تم سچی تھیں۔
تمہارے جذبات سچے تھے میں نے تمہیں بہت قریب سے دیکھا ہے تمہیں پسند کے علاوہ
تمہاری عزت بھی کرتا ہوں ۔
آہستہ آہستہ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا باہر جانا بند کردیا وہ ہر وقت میری
منتظر رہتی ۔ لیکن اب وہ مسرور نہیں تھی اب اسے ماضی یا حال کااتنا خیال نہیں رہا
تھا جتنا مستقبل کا ‘ وہ تنہا اور اداس تھی ۔ کئی مرتبہ میں نے اسے قبرستان
میںبیٹھے دیکھا ۔ایک روز میں بھی اس کے پاس چلا گیا وہ عجیب سی باتیں کرنے لگی کبھی
ایسے پرسکون لمحات بھی آئیں گے جب میں بھی اسی طرح سوجاؤں گی ۔ وہ خاموشی کتنی
سہانی ہوگی ؟ موت کے بعد اگرچہ محض خلاءہوگا دل دوز تاریکی ہوگی لیکن وہ تاریکی اس
کرب نگیز اجالے سے ہرگز بری نہیں ہوگی ۔ اپنی نظم کا ایک بند اس نے کئی بار دہرایا
....”میں ان بد نصیبوں میں سے ہوں جنہیں ہر صبح قلیل روشنی ملتی ہے ۔ امید کی اتنی
سی جلاءکے صرف دن بھر زندہ رہ سکیں ۔ جس روزیہ روشنی نہ مل سکی میں محلمتوں میں کھو
جاؤں گا ۔“
میں نے رنگین اور خوش نما چیزوں کی باتیں کرکے موضوع بدلنا چاہا لیکن وہ بولی
....”کاش تم اندازہ لگاسکتے کہ میں کس قدر غمگین ہوں ‘ کس قدر دل شکستہ ہوں ‘ اگر
مجھے سہارا نہ ملا تومیرے خواب تمام ہوجائیں گے اصول ختم ہوجائیں گے میں کم ہوجاؤں گا ....“
پھر ایک دن جب میں ان افواہوں کی تردید کرنا چاہتا تھا جو ہم نے بارہا اپنے متعلق
سنی تھیں وہ کہنے لگی ....تم مجھے جانتے ہو ‘ سمجھتے ہو ۔ میں بھی تمہاری سیاح روح
سے آشناہوں ‘ تمہارے ان گنت مشغلوں طرح طرح کے خوابوں کا مجھے احساس ہے میں تم سے
صرف ذرا سی توجہ مانگتی ہوں ‘ بالکل ذراسا سہارا اپنی زندگی کا قلیل سا حصہ مجھے دے
دو‘ میں ہمیشہ قانع رہوں گی ‘ میں کبھی تم پر بار نہیں ہوں گی تم میرا ساتھ نہ دینا
میں تمہارے ساتھد چلوں گی ۔
میں اس اشارے کو سمجھ گیا ‘ پہلے بھی کئی مرتبہ اس نے ایسی باتیں کی تھیں ۔ میں یہ
بھی جانتا تھا کہ عورت اورمرد کی دوستی نہایت محدودہے اس پر کئی اخلاقی اور سماجی
بندشیں عائد ہیں ۔ یہ بندش ایک حد تک درست بھی ہیں آخر ایک مقام آتا ہے جہاں فیصلہ
کرنا پڑتا ہے ۔
میں اس مقام سے لوٹ گیا ۔
فیصلہ کرنے کا وقت آیا میں بزدل ثابت ہوا میں خاموش ہوگیا ۔ خاموشہوکر میں اس گروہ
میںشامل ہوگیا۔
|