|
کفن
(منشی پریم چند)
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں، ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش
بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا درد زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی
اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے
تھے۔ جاڑوں کی رات تھی، فضا سناٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا۔
گھسو نے کہا ”معلوم ہوتا ہے بچے گی نہیں۔ سار ا دن تڑپتے ہو گیا، جا دیکھ تو آ۔“
مادھو دردناک لہجے میں بولا ”مرنا ہی ہے تو جلدی مرکیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں۔“
”تو بڑا بیدرد ہے بے! سال بھر جس کے ساتن جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بے
وپھائی۔“
”تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جا تا۔“
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام۔ گھسو ایک دن کا م کرتا تو تین دن
آرام، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹے بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا۔ اس لئے
اسے کوئی رکھتا ہی نہ تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج بھی موجود ہوتو ان کے لئے کام
کرنے کی قسم تھی۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھسو درختوں پر چڑھ کر لکڑی توڑ لاتا
اور مادھو بازار سے بیچ لاتا، اور جب تک وہ پیسے رہتے، دونوں ادھر ادھر ما رے مارے
پھرتے جب فاقے کی نوبت آجاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے یا کوئی مزدوری تلاش کرتے۔ گاؤں
میں کام کی کمی نہ تھی۔ کاشتکاروں کا گاؤں تھا۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے
مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت
کرلینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا۔ کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور
توکل کے لئے ضبط نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی۔ عجیب زندگی تھی
ان کی۔ گھرمیں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی
عریانی کو ڈھانکے ہوئے دنیا کی فکروں سے آزاد۔ قرض سے لدے ہوئے گالیاں بھی کھاتے
مار بھی کھاتے مگر کوئی غم نہیں۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امید نہ ہونے پر لوگ
انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو
اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے۔ یا دن پانچ ایکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے۔
گھسو نے اسی زاہدانہ انداز میں ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی اور مادھو بھی سعادت مند
بیٹے کی طرح باپ کے نقش قدم پر چل رہا تھا بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔
اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے ہوئے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے
کھود لائے تھے۔گھسو کی بیوی کا تو مدت ہوئی انتقال ہو گیا تھا، مادھو کی شادی پچھلے
سال ہوئی تھی۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔
پسائی کر کے گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کرلیتی تھی۔ اور ان دونوں بے
غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی
ہو گئے تھے۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی
شان میں دوگنی مزدوری مانگتے۔ وہی عورت آج صبح سے درزہ میں مر رہی تھی اور یہ دونوں
شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مرجائے تو آرام سے سوئیں۔
گھسو نے آلو نکال کرچھیلتے ہوئے کہا ”جا دیکھ تو کیا حالت ہے“ اس کی چڑیل کا پھنساؤ ہو گا اور کیا، یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے۔ کس کے گھر سے آئے۔“۔
|