|
کفن
(منشی پریم چند)
مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھسو آلوؤں کا بڑاحصہ صاف کردے گا،
بولا ”مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔“
”ڈر کس بات کا ہے؟ میں تو یہاں ہوں ہی“
”تو تمہیں جا کر دیکھو نا۔“
”میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن تک اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں ، اور پھر مجھ
سے لجائے گی کہ نہیں، کبھی اسکا منہ نہیں دیکھا، آج اسکا اگھرا ہوا بدن دیکھوں۔ اسے
تن کی سدھ بھی تو نہ ہو گی۔ مجھے دیکھ لے گی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکے
گی۔“
”میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ سونٹھ، گڑ، تیل، کچھ بھی تو
نہیں ہے گھر میں۔“
”سب کچھ آجائے گا۔ بھگوان بچہ دیںتو، جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں، وہی تب
بلاکردیں گے۔ میرے تو لڑکے ہوئے ، گھرمیں کچھ بھی نہ تھا، مگر اس طرح ہر بار کام چل
گیا۔“
جس سماج میں رات دن محنت کرنےوالوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور
کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں
زیادہ فارغ البال تھے وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیداہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں
تھی۔ ہم تو کہیں گے گھسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا اور کسانوں کی
تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا
تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس
لئے یہ جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے۔ اس پر
سارا گاؤں انگشت نمائی کر رہا تھا پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ
حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی اور اس کی
سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے۔
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے۔ کل سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، اتنا
صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں۔ چھل جانے
پر آلو کا بیرونی حصہ تو زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا تھا لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی
اندر کا حصہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے
سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے۔ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی
سامان تھے۔ اس لئے دونوں جلد جلد نگل جاتے تھے حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے
آنسو نکل آتے۔
گھسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا۔ اس دعوت میں
اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی، وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی اور آج بھی اس
کی یاد تازہ تھی۔ وہ بولا ”وہ بھوج نہیں بھولتا۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر
پیٹ نہیں ملا۔لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں، سب کو۔ چھوٹے بڑے سب نے
پوڑیاں کھائیں اور اصلی گھی کی چٹنی، رائتہ، تین طرح کے سوکھے ساگ، ایک رسے دار
ترکاری، دہی، چٹنی، مٹھائی اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا۔ کوئی روک
نہیں تھی جو چیز چاہو مانگو۔ اور جتنا چاہو کھاؤ لوگوں نے ایسا کھایا، ایسا کھایا
کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا ، مگر پروسنے والے ہیں کہ سامنے گرم گول گول مہکتی ہوئی
کچوریاں ڈال دیتے ہیں۔ منع کرتے ہیں نہیں چاہیے مگر وہ ہیں دیے جاتے ہیں، اور جب سب
نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بڑا پان بھی ملا مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی۔
کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ جھٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا ۔ ایسا دریا دل تھا وہ
ٹھاکر۔“
مادھو نے ان تکلفات کا مزا لیتے ہوئے کہا ”اب ہمیں کوئی ایسا بھوج کھلاتا۔“
”اب کوئی کیا کھلا ئے گا؟“ وہ جمانا دوسرا تھا۔ اب تو سب کو کھبایت سوجھتی ہے۔ سادی
بیاہ میں مت کھرچ کرو، کریا کرم میں مت کھرچ کرو۔ پوچھو گریبوں کا مال بٹور بٹور کر
کہاں رکھو گے۔ مگر بٹورنے میں تو کمی نہیں ہے۔ ہاں کھرچ میں کبھایت سوجھتی ہے۔“
”تم نے ایک بیس پوڑیاں کھائی ہوں گی۔“۔
|