|
کفن
(منشی پریم چند)
بیس سے جیادہ کھائی تھیں۔“
”میں پچاس کھا جاتا۔“
”پچاس سے کم میں نے بھی نہ کھائی ہو ں گی، اچھا پٹھا تھا۔ تو اس کا آدھا بھی نہیں
ہے۔“ آلو کھا کر دونوں نے پانی پیا اور وہیں الاؤ کے سامنے اپنی دھوتیاں اوڑ ھ کر
پاؤں پیٹ میں ڈال کر سو رہے ۔ جیسے دو بڑے بڑے اژدھا کنڈلیاں مارے پڑے ہوں اور
بڑھیا ابھی تک کراہ رہی تھی۔
صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ اس کے منہ
پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک
میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔
مادھو بھاگا ہوا گھسو کے پاس آیا اور پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور
چھاتی پیٹنے لگے۔ پڑوس والوں نے یہ آہ و زاری سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور رسم قدیم
کے مطابق غمزدوں کی تشفی کرنے لگے۔
مگر زیاد رونے دھونے کا موقع نہ تھا کفن کی اور لکڑی کی فکر کرنی تھی۔ گھر میں تو
پیسہ اس طرح غائب تھا جیسے چیل کے گھونسلے میں بانس۔
باپ بیٹے روتے ہوئے گاؤں کے زمینداروں کے پاس گئے۔ وہ ان دونوں کی صورت سے نفرت
کرتے تھے۔ کئی بار انہیں اپنے ہاتھوں پیٹ چکے تھے۔ چوری کی علت، میں وعدے پر کام نہ
کرنے کی علت میں۔ پوچھا ”کیا ہے بے گھسوا۔ روتا کیوں ہے۔ اب تو تیری صورت ہی نظر
نہیں آتی۔ اب معلوم ہوتا ہے تم اس گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے۔“
گھسو نے زمین پر سر رکھ کر آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ”سرکار بڑی بپت میں
ہوں۔ مادھو کی گھر والی رات گجر گئی۔ دن بھر تڑپتی رہی سرکار۔ آدھی رات تک ہم دونوں
اس کے سرہانے بیٹھے رہے۔ دوا دارو جو کچھ ہو سکا سب کیا مگر وہ ہمیں دگا دے گئی۔ اب
کوئی ایک روٹی دینے والا نہیں رہا مالک۔ تباہ ہوگئے ۔ گھر اجڑ گیا۔ آپ کا گلام ہوں۔
اب آپ کے سوا اس کی مٹی کون پار لگائے گا۔ ہمارے ہاتھ میں جو کچھ تھا، وہ سب دوا
دارو میں اٹھ گیا۔ سرکار ہی کی دیا ہو گی تو اس کی مٹی اٹھے گی۔ آپ کے سوا اور کس
کے دوار پر جاؤں۔“
زمیندار صاحب رحمدل آدمی تھے مگر گھسو پر رحم کرنا کالے کمبل پر رنگ چڑھانا تھا۔ جی
میں تو آیا کہہ دیں ”چل دور ہو یہاں سے لاش گھر میں رکھ کر سڑا۔ یوں تو بلانے سے
بھی نہیں آتا۔ آج جب غرض پڑی تو آکر خوشامد کر رہا ہے۔ حرم خور کہیں کا بدمعاش۔“
مگر یہ غصہ یا انتقام کا موقع نہیں تھا۔ طوعاً و کرہاً دوروپے نکال کر پھینک دیے
مگر تشفی کا ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالا۔اس کی طرف تاکا تک نہیں۔ گویا سر کا بوجھ
اتارا ہو۔
جب زمیندار صاحب نے دو روپے دئیے تو گاؤں کے بنئے مہاجنوں کو انکار کی جرا ¿ت
کیونکر ہو تی۔ گھسو زمیندار کے نام ڈھنڈورا پیٹنا جانتا تھا۔ کسی نے دو آنے دئیے
کسی نے چار آنے۔ ایک گھنٹے میں گھسو کے پاس پانچ روپیہ کی معقول رقم جمع ہو گئی۔
کسی نے غلہ دے دیا کسی نے لکڑی اور دوپہر کو گھسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے
اور لوگ بانس وانس کاٹنے لگے۔
گاؤں کی رقیق القلب عورتیں آآکر لاش کو دیکھتی تھیں اور اس کی بے بسی پر دو بوند
آنسو گرا کر چلی جاتی تھیں۔
بازار میں پہنچ کر گھسو بولا۔ ”لکڑی تو اسے جلانے بھر کی مل گئی ہے کیوں مادھو۔“
مادھو بولا ”ہاں لکڑی تو بہت ہے اب کفن چاہیے۔“
”تو کوئی ہلکا سا کفن لے لیں۔“
”ہاں اور کیا! لاش اٹھتے اٹھتے رات ہو جائے گی رات کو کفن کون دیکھتا ہے۔“
”کیسا برا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا نہ ملے، اسے مرنے پر نیا
کفن چاہیے۔“۔
|