|
کفن
(منشی پریم چند)
اور کیا رکھا رہتا ہے۔ یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔“
دونوں ایک دوسرے کے دل کا ماجرا معنوی طور پر سمجھ رہے تھے۔ بازار میں ادھر ادھر
گھومتے رہے۔ یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ دونوں اتفاق سے یا عمداً ایک شرابخانہ کے سامنے
آپہنچے اور گویا کسی طے شدہ فیصلے کے مطابق اندر گئے۔ وہاں ذرا دیر تک دونوں تذبذب
کی حالت میں کھڑے رہے۔ پھر گھسو نے ایک بوتل شراب لی۔ کچھ کزک لی اور دونوں برآمدے
میں بیٹھ کر پینے لگے۔
کئی کچناں پیہم پینے کے بعد دونوں سرور میں آگئے۔
گھسو بولا”کفن لگانے کیا ملتا ۔ آکھر جل ہی تو جاتا۔ کچھ بہوکے ساتھ تو نہ جاتا۔“
مادھو آسمان کی طرف دیکھ کر بولا گویا فرشتوں کو اپنی معصومیت کا یقین دلا رہا ہو۔
”دنیا کا دستور ہے۔ یہی لوگ باسنوں کو ہجاروں روپے کیوں دیتے ہیں۔ کون دیکھتا ہے ۔
پرلوک میں ملتا ہے یانہیں۔“
”بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے پھونکیں، ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے۔“
”لیکن لوگوں کو کیاجواب دوگے؟ لو گ پوچھیں گے کہ کفن کہاہے؟“
گھسو ہنسا۔ ”کہہ دیں گے کہ روپے کمر سے کھسک گئے بہت ڈھونڈا۔ ملے نہیں۔“
مادھو بھی ہنسا۔ اس غیر متوقع خوش نصیبی پر قدرت کو اس طرح شکست دینے پر بولا۔ ”بڑی
اچھی تھی بیچاری مری بھی تو خوب کھلا پلا کر۔“
”آدھی بوتل سے زیادہ ختم ہو گئی۔ گھسونے دو سیر پوریاں منگوائیں، گوشت اور سالن اور
چٹ پٹی کلیجیاں اور تلی ہوئی مچھلیاں۔ شراب خانے کے سامنے دوکان تھی، مادھو لپک کر
دو پتلوں میں ساری چیزیں لے آیا۔ پورے ڈیڑھ روپے خرچ ہوگئے۔ صرف تھوڑے سے پیسے بچ
رہے۔“
دونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا
شکار اڑا رہا ہو۔ نہ جواب دہی کا خوف تھا نہ بدنامی کی فکر۔ ضعف کے ان مراحل کو
انہوںنے بہت پہلے طے کرلیا تھا۔ گھسو فلسفیانہ انداز سے بولا۔ ”ہماری آتما پرسن ہو
رہی ہے تو کیا اسے پن نہ ہوگا۔“
مادھو نے فرق صورت جھکا کر تصدیق کی” جرور سے جرور ہو گا۔ بھگوان تم انتر جامی(علیم
)ہو۔ اسے بیکنٹھ لے جانا۔ ہم دونوں ہردے سے اسے دعا دے رہے ہیں۔ آج جو بھوجن ملا وہ
کبھی عمر بھر نہ ملا تھا۔“
ایک لمحہ کے بعد مادھو کے دل میں ایک تشویش پیدا ہوئی۔ بولا ”کیوں دادا ہم لوگ بھی
تو وہاں ایک نہ ایک دن جائیں گے ہی“ گھسو نے اس طفلانہ سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
مادھو کی طرف پر ملامت انداز سے دیکھا۔
”جو وہاں ہم لوگوں سے پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کفن کیوں نہ دیا، تو کیا کہیں گے؟“
”کہیں گے تمہارا سر۔“
”پوچھے گی تر جرور۔“
”تو کیسے جانتا ہے اسے کفن نہ ملے گا؟ مجھے اب گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا
میں کیا گھاس کھودتارہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا ، جو ہم
دیں گے۔“
مادھو کو یقین نہ آیا۔ ”بو لا کون دے گا؟ روپے تو تم نے چٹ کردئیے۔“
گھسو تیز ہو گیا۔ ”میں کہتا ہوں اسے کفن ملے گا تو مانتا کیوں نہیں؟“
”کون دے گا، بتاتے کیوں نہیں؟“۔
|