|
کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو)
سلطانہ مسکرا دی اور اس کو بھول
گئی کیونکہ سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہو گیا تھا۔ سلطانہ نے غور سے اس کی
طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے پھر
سڑک کی طرف دیکھا تو وہی آدمی بیل گاڑیوں کے پاس کھڑا نظر آیا۔وہی جس نے اس کی طرف
للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے ادھر ادھر
دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے پوچھا ”کدھر سے آؤں؟“ سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ
آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر بڑی پھرتی سے اوپر چلا آیا۔
سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لئے
کہا ” آپ اوپر آتے ہوئے ڈر رہے تھے۔“ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔ ”تمہیں کیسے معلوم
ہوا.... ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟“ اس پر سلطانہ نے کہا کہ ”یہ میں نے اس لئے کہا کہ
آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے“۔ وہ یہ سن کر مسکرا دیا ”
تمہیں غلط فہمی ہوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی
عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی ۔ مجھے یہ منظر پسند آیا پھر بالکونی میں
سبز بلب روشن ہوا تو میں کچھ دیر کے لئے اور ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے بہت پسند ہے۔
آنکھوں کو اچھی لگتی ہے۔ “ یہ کہہ کر اس نے کمرہ کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ
اٹھ کھڑا ہوا ۔ سلطانہ نے پوچھا ” آپ جا رہے ہیں“ ۔ آدمی نے جواب دیا۔ ” نہیں میں
تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں.... چلو مجھے تمام کمرے دکھا“۔
سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کر کے دکھا دئیے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے
ان کمروں کا جائزہ لیا ۔ جب وہ دنوں پھر اسی کمرہ میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تھے تو
اس آدمی نے کہا ” میرا نام شنکر ہے“۔
سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا
انسان تھا۔ مگر اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر صاف و شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں
ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گھٹیا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے
بال سفید ہو رہے تھے۔ گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے
اوپر کو اٹھا ہوا تھا۔
شنکر کچھ اسی طرح دری پر بیٹھا ہوا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کی بجائے سلطانہ
گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا چنانچہ اس نے شنکر سے کہا
”فرمائیے....“
شنکر بیٹھا تھا، یہ سن کر لیٹ گیا۔ ” میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ، بلایا
تم نے ہے مجھے۔“ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو اٹھ بیٹھا۔ ” میں سمجھا، لو اب مجھ سے
سنو جو کچھ تم نے سمجھا ہے غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دے
جایاکرتے ہیں ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینی ہی
پڑتی ہے۔“
سلطانہ یہ سن کر چکرا گئی۔ مگر اسکے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔
”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا ”یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔“
”کیا؟“
”میں....میں.... کچھ بھی نہیں کرتی۔“
”میں بھی کچھ نہیں کرتا۔“
سلطانہ نے بھنا کر کہا ” یہ کوئی بات نہ ہوئی.... آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے
ہونگے۔“
شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ” تم بھی کچھ نہ کچھ ضرورر کرتی ہوگی۔“
”جھک مارتی ہوں۔“
|