|
کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو)
”تو آؤ دونوں جھک ماریں“۔
”میں حاضر ہوں۔ مگر میں جھک مارنے کے دام کبھی نہیں دیا کرتا۔“
”ہوش کی دوا کرو....یہ لنگر خانہ نہیں۔“
”اور میں بھی والنٹیئر نہیں ہو!“
سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا ” یہ والنٹیئر کون ہوتے ہیں؟“
شنکر نے جواب دیا۔ ”الو کے پٹھے۔“
”میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔“
”مگر وہ آدمی جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور الو کا پٹھا ہے۔“
”کیوں؟“
اس لئے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی
خاطر جا رہاہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔“ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔
اس پر سلطانہ نے کہا۔ ” تم ہندو ہو اس لئے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اڑاتے ہو۔“
شنکر مسکرا دیا۔ ”ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہوا کرتے۔ بڑے بڑے پنڈت
مولوی اگر یہاں آئیں تو وہ شریف آدمی بن جائیں۔“
” جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو.... بولو، رہو گے اسی شرط پر جو میں پہلے
بتا چکاہوں۔“
سلطانہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ” تو جاؤ رستہ پکڑو۔“
شنکر آرام سے اٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے
کہا۔ ” میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرتا ہوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو، بلا
لینا.... میں بہت کام کا آدمی ہوں۔“
شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس
آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالہ میں آیا ہوتا
جہاں وہ خوش حال تھی تو اس نے کسی اور ہی رنگ میں ا س آدمی کودیکھا ہوتا اور بہت
ممکن ہے کہ اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا ہوتا اگر یہاں چونکہ وہ اداس رہتی تھی اس
لئے شنکر کی باتیں پسند آئیں۔
شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اس سے پوچھا ”تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟“
خدا بخش تھک کر چور چور ہو رہا تھا کہنے لگا ” پرانے قلعے سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک
بزرگ کچھ دنوں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انہی کے پاس ہر روز جاتا ہوں کہ ہمارے دن پھرجائیں۔“
”کچھ انہوں نے تم سے کہا۔“
”نہیں ابھی وہ مہربان نہیں ہوئے....پر سلطانہ، میں جوان کی خدمت کر رہاہوں وہ اکارت
کبھی نہیں جائے گی۔اللہ کا فضل شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہوجائیں گے۔“
سلطانہ کے دماغ میں محرم بنانے کا خیال سمایا ہوا تھا۔ خدا بخش سے رونی آواز میں
کہنے لگی۔ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں۔ نہ
کہیں جا سکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے۔ کچھ تم نے اس کی بھی فکری کی کہ مجھے کالے
کپڑے چاہیں۔
|