|
کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو)
گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بک
گئیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیاہوگا؟.... یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا
کروگے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا
ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کر دو، کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔“
خدابخش دری پر لیٹ گیا اورکہنے لگا۔ ”پر یہ کام شروع کرنے کے لئے بھی تو تھوڑا بہت
سرمایہ چاہیے....خدا کے لئے اب ایسی دکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو
سکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی تھی۔ پر جو کرتا ہے اللہ ہی
کرتاہے اور ہماری بہتری ہی کےلئے کرتاہے۔ کیا پتہ ہے کچھ دیر اور تکلیف برداشت کرنے
کے بعد ہم....“
سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔”تم خدا کے لئے کچھ کرو۔ چوری کرو یاڈاکہ ڈالو پرمجھے
شلوار کا کپڑا لا دو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی ایک قمیض پڑی ہوئی ہے اس کو میں کالا
رنگوا لوںگی۔سفید شفون کا ایک دوپٹا بھی میرے پاس موجود ہے۔ وہی جو تم نے دیوالی پر
مجھے لا کر دیا تھا۔ یہ بھی قمیض کے ساتھ ہی رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی
کسر ہے سو وہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو....دیکھو تمہیں میری جان کی قسم، کسی نہ
کسی طرح ضرور لا دو.... میری بھتی نہ کھاؤ اگر نہ لا۔“
خدابخش اٹھ بیٹھا۔ ” اب تم خواہ مخواہ زور دئیے چلی جا رہی ہو....میں کہاں سے لاؤں گا....افیم کھانے کے لئے تو میرے پاس پیسے نہیں۔“
”کچھ بھی کرو مگر ساڑھے چار گز کالی شلوار کا کپڑا لا دو۔“
”دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین بندے بھیج دے۔“
”لیکن تم کچھ نہیں کرو گے.... تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کر سکتے ہو۔ جنگ
سے پہلے ساٹن بارہ چودہ آنے گز مل جاتی تھی۔ اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے
ساڑھے چار گزوں پر کتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟“
”اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔“ یہ کہہ کر خدا بخش اٹھا۔ ” لو اب ان
باتوں کو بھول جاؤ۔ میں ہوٹل سے کھانا لاتا ہوں۔“
ہوٹل سے کھانا آیا۔ دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سوگئے۔ صبح ہوئی۔ خدابخش پرانے
قلعہ والے فقیر کے پاس چلا گیا۔ سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی کچھ دیر
سوئی رہی۔ ادھر ادھر کمروں میں ٹہلتی رہی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا
شفون کا دوپہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لئے
دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔
یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی
فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی۔ جب اٹھی
تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ
ہوئی تو گرم چادر اڑھ کر بالکونی میں آکھڑ ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی
میں کھڑی رہی۔ اب شام ہو گئی تھی۔ بتیاں روشن ہو رہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے
آثار نظر آرہے تھے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہو گئی تھی۔ مگر سلطانہ کو یہ ناگوار
معلوم نہ ہوا۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصے سے دیکھ رہی
تھی۔ دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ
کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ سلطانہ غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر
بلا لیا۔
جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہوئی کہ اسے کیا کہے۔ در اصل اس نے ایسے ہی
بنا سوچے سمجھے اسے اشارہ کر دیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا۔ جیسے اس کا اپنا گھر
ہے۔ چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح گاؤ تکیہ کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ
گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس نے کہا ” تم سو دفعہ مجھے بلا
سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ.... میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض
نہیں ہوا کرتا۔“
سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہو گئی کہنے لگی۔ ”نہیں بیٹھو تمہیں جانے کو کون کہتا
ہے۔
|