|
کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو)
شنکر اس پر مسکر ادیا۔ ”تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔“
”کیسی شرطیں؟“ سلطانہ نے ہنس کر کہا ”کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے ؟“
”نکاح اور شادی کیسی؟....نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کروگی، نہ میں.... یہ رسمیں
ہم لوگوں کے لئے نہیں....چھوڑو ان فضولیات کو، کوئی کام کی بات کرو۔“
”بولو کیا کروں؟“
”تم عورت ہو....کوئی ایسی بات کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے.... اس دل میں صرف
دکانداری ہی دکانداری نہیں ، کچھ اور بھی ہے۔“
سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کر چکی تھی، صاف صاف کہو تم مجھ سے کیا چاہتے
ہو؟“
”جو دوسرے چاہتے ہیں“۔ شنکر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔“
” تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اور مجھ میں زمین آسمان کاک فرق ہے۔
ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔“
سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی، پھر کہا ” میں سمجھ
گئی ہوں!“
”تو کہو کیا ارادہ ہے؟“
”تم جیتے، میں ہاری، پر میں کہتی ہوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہو گی۔“
”تم غلط کہتی ہو....اسی محلہ میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائیں گی جو
یقین نہیں کریں گی کہ کیا عورت ایسی ذلت قبول کر سکتی ہے جو تم بغیر کسی احسکس کے
قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود
ہو....تمہارا نام سلطانہ ہے نا“۔
”سلطانہ ہی ہے“۔
شنکر اٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔ ”میرا نام شنکرہے....یہ نام بھی عجب اوٹ پنانگ
ہوتے ہیں۔ چلو اندر چلیں۔“
شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے جانے کس بات پر۔
جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔ شنکر تم میری ایک بات مانو گے؟“
شنکر نے جواباً کہا۔ ” پہلے بات تو بتاؤ؟“
سلطانہ کچھ جھنیپ سی گئی۔ ”تم کہوگے میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں، مگر....“
”کہو کہو، ....رک کیوں گئی ہو؟“
سلطانہ نے جرا ¿ت سے کام لے کر کہا۔ ”بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے
پیسے نہیں ہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم سن ہی چکے
ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لئے دے دیاہے!“
شنکر نے یہ سن کر کہا”تم چاہتی ہوکہ میں تمہیں کچھ روپے دوں جو تم کالی شلوار بنا
سکو۔“
سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔ ” نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی
شلوار بنوا دو۔“
شنکر مسکرایا۔ ” میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ بہر حال میں کوشش
کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔
|