|
کالی شلوار
(سعادت حسن منٹو)
لو بس اب تو خوش ہو
گئیں۔ پھر سلطانہ کے بندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا ” کیا یہ بندے تم مجھے دے
سکتی ہو؟“
سلطانہ نے ہنس کر کہا ” تم انہیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بندے ہیں۔ زیادہ سے
زیادہ پانچ روپے کے ہو نگے۔“
اس پر شنکر نے ہنس کر کہا ”میں نے تم سے بندے مانگے ہیں ان کی قیمت نہیں پوچھی۔
بولو دیتی ہو؟“
”لے لو“ یہ کہہ کر سلطانہ نے بندے اتار کر شنکر کو دے دئیے۔ اس کو بعد میں افسوس
ہوا، لیکن شنکر جا چکا تھا۔
سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پوراکرے گا۔ مگر آٹھ روز کے بعد
محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ دروازہ کھولا تو
شنکر کھڑا تھا۔ اخبارمیں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا ” ساٹن کی کالی
شلوار ہے۔ دیکھ لینا شاید لمبی ہو.... اب میں چلتاہوں۔“
شنکر شلوار دے کر چلا گیا اور کوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں
شکنیں پڑی ہوئی تھیں، بال بکھرے ہوئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر
اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیاہے۔
سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی۔ ایسی ہی جیسی کہ وہ مختار کے پاس
دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہوئی۔ بندوں اور اس سودے کا جو افسوس اسے ہوا تھا۔
اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔
دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگین قمیض اور دوپٹہ لے آئی۔ تینوں کالے
کپڑے جب اس نے پہن لئے تو دروازے پر دستک ہوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو مختار
اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ”قمیض اور
دوپٹہ تو رنگا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ پر یہ شلوار نئی ہے، کب بنوائی؟“
سلطانہ نے جواب دیا”آج ہی درزی لایا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں مختار کے کانوں
پر پڑیں۔ ” یہ بندے تم نے کہاں سے لئے؟“
مختار نے جواب دیا ” آج ہی منگوائے ہیں۔“
اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر خاموش رہنا پڑا۔
|