|
لحاف
(عصمت چغتائی)
جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیوا روں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی کی
طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں
میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا، میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جا رہی ہوں۔
نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل آرام دہ سہی،
مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جتنی.... جب لحاف کی پرچھائیں دیوار پر
ڈگمگا رہی ہو۔ یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے
دوستوں کے ساتھ مارکٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتاکہ میں کم
بخت اتنی لڑاکا کیوں ہوں۔ اس عمر میں جب کہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں
میں اپنے پرائے ہر لڑکے اور لڑکی سے جو تم بیزار میں مشغول تھی۔
یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں، تو ہفتہ بھر کے لئے مجھے اپنی منہ بولی بہن
کے پاس چھوڑ گئیں۔ ان کے یہاں اماں خوب جانتی تھی کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں ، اور
میں کسی سے لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی! ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس
چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح
محفوظ ہے۔ یہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اسی لئے داماد
بنالیا کہ وہ پکی عمر کے تھے ۔ مگر تھے نہایت نیک کوئی رنڈی بازاری عورت ان کے یہاں
نظر نہیں آئی۔ خود حاجی تھے، اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔ مگر انہیں ایک عجیب و
غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا شوق ہوتا ہے، بٹیرے لڑاتے ہیں، مرغ بازی
کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفر ت تھی۔ ان کے یہاں تو بس
طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے جن کا خرچ وہ خود برداشت
کرتے تھے۔
مگر بیگم جان سے شادی کر کے تو وہ انہیں کل ساز و سامان کے ساتھ ہی گھر میں رکھ کر
بھول گئے۔ اور وہ بے چاری دبلی پتلی نازک سی بیگم تنہائی کے غم میں گھلنے لگی۔
نہ جانے ان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کر چکی
تھی، یا وہاں سے جب وہ ایک نواب بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے
لگیں۔ یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا، ن کے لئے مرغن حلوے اور لذیذ
کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کے درزوں میں سے ان لچکتی کمروں والے لڑکوں
کی چست پنڈلیاں اور معطر باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔
یا جب سے ، جب وہ منتوں مرادوں سے ہار گئیں، چلے بندھے اور ٹوٹکے اور راتوں کی
وظیفہ خوانی بھی چت ہو گئی۔ کہیں پتھر میں جونک لگتی ہے نواب صاحب اپنی جگہ سے ٹس
سے مس نہ ہوئے۔ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا، اور وہ علم کی طرف متوجہ ہوئیں۔ لیکن
یہاں بھی انہیں کچھ نہ ملا۔ عشقیہ ناول اور جذباتی اشعار پڑھ کر اور بھی پستی
چھاگئی۔ رات کی نیند بھی ہاتھ سے گئی۔ اور بیگم جان جی جان چھوڑ کر بالکل ہی یاس و
حسرت کی پوٹ بن گئیں۔ چولہے میں ڈالا ایسا کپڑا لتا۔ کپڑا پہنا جا تا ہے، کسی پر
رعب گانٹھنے کے لئے ۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کرتوتوں کو چھوڑ کر ذرا
ادھر توجہ کریں، اور نہ وہ انہیں آنے جانے دیتے جب سے بیگم جان بیاہ کر آئی تھیں
رشتہ دار آکر مہینوں رہتے اور چلے جاتے۔ مگر وہ بے چاری قید کی قید رہتیں۔
|