|
لحاف
(عصمت چغتائی)
ان رشتہ داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا کہ سب کے سب مزے سے مال اڑانے
، عمدہ گھی نگلنے، جاڑوں کا ساز و سامان بنوانے آن مرتے، اور باوجود نئی روئی کے
لحاف کے بڑی سردی میں اکڑا کرتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بنا کر دیوار پر
سایہ ڈالتا۔ مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انہیں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہو۔
مگر کیوں جئے پھر کوئی، زندگی! جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں ، وہ
پھر جینے لگیں، اور خوب جئیں!
ربو نے انہیں نیچے گرتے گرتے سنبھال لیا۔ چپ پٹ دیکھتے دیکھتے ان کا سوکھا جسم ہرا
ہونا شروع ہو ا۔ گال چمک اٹھے اور حسن پھوٹ نکلا۔ ایک عجیب وغریب تیل کی مالش سے
بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی۔ معاف کیجئے، اس تیل کا نسخہ آپ کو بہترین سے
بہترین رسالہ میں بھی نہ ملے گا۔
جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تووہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ افوہ کس شان سے وہ مسند
پر نیم دراز تھیں۔ اور ربو ان کی پیٹھ سے لگی کمر دبا رہی تھی۔ ایک اودے رنگ کا
دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا۔ اور وہ مہارانوں کی طرح شاندار معلوم ہو رہی تھیں۔
مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا، گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی
صورت دیکھا کروں ۔ ان کی رنگت بالکل سفید تھی۔ نام کو سرخی کا ذکر نہیں اور بال
سیاہ اور تیل میں ڈوبے رہتے تھے۔ میں نے آج تک ان کی مانگ ہی بگڑی نہ دیکھی۔ مجال
ہے جو ایک بال ادھر ادھر ہو جائے۔ ان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابرو پر کے زائد بال
علیحدہ کردینے سے کمانیں سے کچھی رہتی تھیں۔ آنکھیں ذرا تنی ہوئی رہتی تھیں۔ بھاری
بھاری پھولے پپوٹے موٹی موٹی آنکھیں۔ سب سے جو ان کے چہرے پر حیرت انگیز جاذبیت نظر
چیز تھی، وہ ان کے ہونٹ تھے۔ عموماً وہ سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ اوپر کے ہونٹوں پر
ہلکی ہلکی مونچھیں سی تھیں ، اور کنپٹیوں پر لمبے لمبے بال کبھی کبھی ان کا چہرہ
دیکھتے دیکھتے عجیب سا لگنے لگتا تھا۔ کم عمر لڑکوں جیسا!....
ان کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی۔ معلوم ہوتا تھا، کسی نے کس کر ٹانکے لگا
دئیے ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجانے کے لئے کھولتیں، تو میں چپکے چپکے ان کی
چمک دیکھا کرتی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا۔ اور پھر گوشت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی
لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں۔ لیکن بہت متناسب اور ڈھیلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے
اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر، تو ربو ان کی پیٹھ کھجایا کرتی تھی۔ یعنی گھنٹوں ان کی
پیٹھ کھجاتی۔ پیٹھ کھجوانا بھی زندگی کی ضروریات میں سے تھا۔ بلکہ شاید ضرورت زندگی
سے بھی زیادہ ۔
ربو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا بس وہ سارے وقت ان کے چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی
پیر، کبھی سر اور کبھی جسم کے دوسرے حصے کو دبایا کرتی تھی۔ کبھی تو میرا دل ہول
اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ نہ کچھ دبا رہی ہے، یا مالش کر رہی ہے۔ کوئی دوسرا ہوتا
تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں اپنا کہتی ہوں، کوئی اتنا چھوئے بھی تو میرا جسم سڑ گل کے
ختم ہو جائے۔
اور پھر یہ روز روز کی مالش کافی نہیں تھی۔ جس روز بیگم جان نہاتیں۔ یا اللہ بس دو
گھنٹہ پہلے سے تیل اور خوشبودار ابٹنوں کی مالش شروع ہو جاتی اور اتنی ہوتی کہ میرا
تو تخیل سے ہی دل ٹوٹ جاتا۔ کمرہ کے دروازے بند کرکے انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا
مالش کا دور۔ اور عموماً صرف ربو ہی رہتی۔ باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی دروازہ پر سے
ہی ضرورت کی چیزیں دیتی جاتیں۔
بات یہ بھی تھی کہ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ بے چاری کو ایسی کھجلی ہوتی تھی
اور ہزاروں تیل اور ابٹن ملے جاتے تھے مگر کھجلی تھی کہ قائم۔ ڈاکٹر حکیم کہتے کچھ
بھی نہیں۔ جسم صاف چٹ پڑا ہے۔ ہاں کوئی جلد اندر بیماری ہو تو خیر۔ نہیں بھئی یہ
ڈاکٹر تو موئے ہیں پاگل۔ کوئی آپ کے دشمنوں کو مرض ہے۔ اللہ رکھے خون میں گرمی ہے۔
ربو مسکرا کر کہتی، اور مہین مہین نظروں سے بیگم جان کو گھورتی۔ اوہ یہ ربو....
جتنی یہ بیگم جان گوری، اتنی ہی یہ کالی تھی۔ جتنی یہ بیگم جان سفید تھیں، اتنی ہی
یہ سرخ۔ بس جیسے تپا ہوا لوہا۔ ہلکے ہلکے چیچک کے داغ۔ گٹھا ہوا ٹھوس جسم،۔
|