|
لحاف
(عصمت چغتائی)
آج ربو اپنے بیٹے سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ وہ بڑا جھگڑالو تھا۔ بہت کچھ بیگم جان نے
کیا اسے دکان کرائی....گاؤں میں لگایا ....مگر وہ کسی طرح مانتا ہی نہ تھا۔ نواب
صاحب کے یہاں کچھ دن رہا۔ خوب جوڑے بھاگے بھی بنے، نہ جانے کیوں ایسا بھاگا کہ ربو
سے ملنے بھی نہ آتا تھا۔
لہذا ربو ہی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں اس سے ملنے گئی تھی۔ بیگم جان نہ جانے دیتی
مگر ربو بھی مجبور ہو گئی۔
سارا دان بیگم جان پریشان رہیں۔ اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انہیں
نہ بھاتا تھا۔ انہوںنے کھانا بھی نہ کھایا۔ اور سارا دن اداس پڑی رہیں۔
”میں کھجا دوں سچ کہتی ہوں“ ۔ میں نے بڑے شوق سے تاش کے پتے بانٹتے ہوئے کہا۔ بیگم
جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔
میں تھوڑی دیر کھجاتی رہی، اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربو کو آنا تھا۔
مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔ چائے پی پی کر انہوںنے
سر میں درد کرلیا۔
میں پھر کھجانے لگی، ان کی پیٹھ.... چکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ.... میں ہولے ہولے
کھجاتی رہی۔ ان کا کام کرکے کیسی خوش ہوتی تھی۔
”ذرا زور سے کھجاؤ.... بند کھول دو“ بیگم جان بولیں۔
ادھر.... اے ہے ذرا شانے سے نیچے....ہاں....وہاں بھئی واہ....ہا ....ہا ....وہ سرور
میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان کا اظہار کرنے لگیں۔
”اور ادھر....حالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خوب جا سکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی
تھیں۔ اور مجھے الٹا فخر ہو رہا تھا“ یہاں ....اوئی.... تم تو گدگدی کرتی
ہو....واہ....“ وہ ہنسیں۔ میں باتیں بھی کر رہی تھی اور کھجا رہی تھی۔
تمہیں کل بازار بھیجوں گی....کیا لوگی.... وہی سوتی جاگتی گڑیا۔
نہیں بیگم جان.... میں تو گڑیا نہیں لیتی.... کیا بچہ ہوں اب میں....“
بچہ نہیں تو کیا بوڑھی ہو گئی.... وہ ہنسیں.... گڑیا نہیں تو ببوا لینا....کپڑے
پہنانا خود۔ میں دوں گی تمہیں بہت سے کپڑے سنا....“ انہوں نے کروٹ لی۔
”اچھا“ میں نے جواب دیا۔
”ادھر“ .... انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر جہاں کجھلی ہو رہی تھی، رکھ دیا۔ جہاں انہیں
کھجلی معلوم ہوتی وہاں رکھ دیتی۔ اور میں بے خیالی میں ببوے کے دھیان میں ڈوبی مشین
کی طرح کھجاتی رہی۔ اور وہ متواتر باتیں کرتی رہیں۔
”سنو تو....تمہاری فراکیں کم ہو گئی ہیں۔ کل درزی کو دے دوں گی کہ نئی سی لائے۔
تمہاری اماں کپڑے دے گئی ہیں۔“
”وہ لال کپڑے کی نہیں بنواؤں گی.... چماروں جیسی ہے۔“ میں بکواس کر رہی تھی اور
میرا ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم بھی نہ ہوا۔
بیگم جان تو چت لیٹی تھیں....ارے.... میں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
”اوئی لڑکی....دیکھ کر نہیں کھجاتی.... میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔“ بیگم جان شرارت
سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔
ادھر آکر میرے پاس لیٹ جا....“ انہوںنے مجھے بازو سے سر رکھ کر لٹا لیا۔
اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے ۔ پسلیاں نکل رہی ہیں۔ انہوںنے پسلیاں گننا شروع کردیں۔
”اوں....“ میں منمنائی۔
|