|
لحاف
(عصمت چغتائی)
مگر میں کلی کی طرح پھسل گئی۔ سارے کھلونے، مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جانے کی رٹ
ایک طرف۔
”وہاں بھیا ماریں گے ....چڑیل....“ انہوںنے پیار سے مجھے تھپڑ لگایا۔
”پڑیں ماریں بھیا.... میں نے سوچا۔ اور روٹھی اکڑتی رہی۔ ”کچی امیاں کھٹی ہوتی ہیں
بیگم جان....“ جلی کٹی ربو نے رائے دی اور پھر اس کے بعد بیگم جان کو دورہ پڑ گیا۔
سونے کا ہار جو وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے پہنا رہی تھیں، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ مہین جالی
کا دوپٹہ تار تار۔ اور وہ مانگ جو میں نے کبھی بگڑی نہ دیکھی تھی، جھاڑ جھنکاڑ ہو
گئی۔
”اوہ .... اوہ اوہ اوہ....“ وہ جھٹکی لے لے کر چلانے لگیں۔ میں رپٹی باہر۔
بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔ جب میں سونے کے لئے کمرے میں دبے پیر جا کر
جھانکی، تو ربو ان کی کمر سے لگی جسم دبا رہی تھی۔
”جوتی اتار دو.... اس نے اس کی پسلیاں کھجاتے ہوئے کہا اور میں چوہیا کی طرح لحاف
میں دبک گئی۔“
سر سر پھٹ کج.... بیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔
”اللہ آں....“ میں نے مری ہوئی آواز نکالی۔ لحاف میں ہاتھی چھلکا اور بیٹھ گیا۔ میں
بھی چپ ہوگئی۔ ہاتھی نے پھر لوٹ مچائی۔ میرا رواں رواں کانپا۔ آج میں نے دل میں
ٹھان لیا کہ ضرور ہمت کرکے سرہانے لگا ہوا بلب جلا دوں۔ ہاتھ پھڑپھڑا رہا تھا، اور
جیسے اکڑوں بیٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔ چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آواز آرہی تھیں۔ جیسے
کوئی مزے دار چٹنی چکھ رہا ہو۔ اب میں سمجھی! یہ بیگم جان نے آج کچھ نہیں کھایا اور
ربو مردی تو ہے سدا کی چٹو۔ ضرور یہ تر مال اڑا رہی ہے۔ میں نے نتھنے پھلا کر سوں
سوں ہوا کو سونگھا۔ سوائے عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ
ہوا۔
لحاف پھر امنڈنا شروع ہو ا۔ میں نے بہیترا چا ہا کہ چپکی پڑی رہوں۔ مگر اس لحاف نے
تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانی شروع کیں کہ میں ڈر گئی۔ معلوم ہوتا تھا غوں غوں
کرکے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے۔اور اب اچھل کر میرے اوپر آیا۔
آ....ن....اماں.... میں ہمت کرکے گنگنائی۔ مگر وہاں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور لحاف
میرے دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلنگ کے دوسری طرف پیر
اتارے، اور ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا۔ ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلابازی
لگائی، اور پچک گیا۔ قلابازی لگانے میں لحاف کا کونہ فٹ بھر اٹھا۔
اللہ! میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں آئی۔
|