|
لوہے کا کمر بند
(رام لعل)
لیکن وہ کرہی کیا سکتی تھی ۔ اب تووہ ہر طرح سے بے بس تھی ۔
بند کھڑکیوں اوردروازوں کے باہر اسے کتنے مردوں کی سیٹیاںسنائی دیتی تھیں ۔ بعض لوگ
تو اس کا نام پکارتے ہوئے یا شعر پڑھتے ہوئے گلی میں سے گزرتے ۔ یہ شعر اس کے بے
پناہ حسن کی تعریف میں یا خود ان کی اپنی اندرونی کیفیتوں کے غماز ہوتے ۔ لیکن وہ
کبھی دروازہ یا کھڑی کھول کر باہر نہیں جھانکتی تھی ۔ کیونکہ وہ اپنے شوہر سے بہت
محبت کرتی تھی ۔ اس کے ملازم اس قسم کی آوازیں سن کر ہمیشہ چوکنے ہوجاتے تھے ، اور
وہ اپنے دل میں کبھی کبھی پیدا ہوجانے والی اس خواہش کو بڑی سختی سے دبا لیتی تھی
کہ وہ کسی روز تو کھڑکی کو ذرا سا کھول کر اپنے عاشقوں کی شکل ہی دیکھ لے ۔
اس کے کانوں میں جو سیٹیاں گونجتی تھیں ،اور عاشقانہ اشعار پڑھنے کی جو آوازیں آتی
تھیں ۔ان کی وجہ سے شکیل اور بہادر مردوں کی تصویریں اپنے آپ اس کی آنکھوں کے سامنے
آجاتیں ۔
لیکن کبھی کبھی اس کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا کہ اس کے عاشقوں میں ایک بھی ایسا
بہادرآدمی نہیں جو مکان کی اونچی دیوار پھلانگ کر اسے اغواءکرکے لے جائے ۔
رفتہ رفتہ اغواءکئے جانے کے تصور محض سے ہی اسے تسکین ملنے لگی اسے لگتا کہ وہ ایک
اجنبی مرد کے آگے اس کے گھوڑے پرسوار ہے وہ گھوڑے کو سرپٹ بھگائے لے جارہا ہے ۔اور
اسے گھر سے سینکڑوں کو س دور ایک گھنے جنگل میں لے جاتا ہے ۔ جہاں سے اسے کوئی بھی
واپس نہیں لے جاسکے گا ۔ اب وہ اپنے شکی مزاج اور ظالم شوہر کے پنجے سے ہمیشہ کےلئے
آزاد ہوچکی ہے ۔ لیکن جب وہ اپنے اجنبی عاشق کے ساتھ جسمانی تعلق کی بات سوچنے
بیٹھتی تو اس کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ کمرمیں لوہے کے کمربند کی وجہ سے تو وہ کسی بھی
مرد کے کام کی نہیں رہی تھی جب تک اس کمر بند کو کھول نہ دیا جائے لیکن اس کی چابی
تو اس کے شوہر کے پاس تھی ۔
ایک مرتبہ سوداگر کی بیوی کے کانوں میں ایک ایسی مغنی کے گانے کی آوازآئی ۔ جسے
سنتے ہی وہ مضطرب ہوگئی ۔ اس سے رہا نہ گیا اس نے اپنے قیمتی زیورات اپنے نوکروں کو
انعام کے طور پردے دیئے اور ان سے کہا ۔
” اس مغنی کو تھوڑی دیر کے لئے میرے پاس لے آؤ۔ اس کا گانا سنوں گی ۔ اس کی آواز
میں بڑا سوز ہے ، جس نے میرے دل میں میرے پیارے شوہر کی یاد تازہ کردی ہے ۔ جو ایک
مدت سے مجھ سے ہزاروں کوس دور پردیس میں ہے اور میں اس کے فراق میں دن رات تڑپا
کرتی ہوں ۔“
ملازم فوراًاس مغنی کو بلا کرلے آئے ۔ وہ اس علاقے کا مشہور و معروف مغنی تھا ۔ لوگ
اس کی آواز سن کر وجد میں آجاتے تھے ۔ وہ مردانہ حسن و شکوہ کا ایک بے مثال نمونہ
تھا ۔ اونچا قد ، مضبوط جسم ، لمبے لمبے بازو ، سانولا رنگ اورلہراتے ہوئے
گھنگھریالے بال اس کی آنکھوں میںغضب کی کشش تھی ، اور محبت کی ایک عجیب سے شدت بھی
۔ اس نے بھی سوداگر کی بیوی کے حسن کے چرچے سن رکھے تھے او رغائبانہ طور پر اس سے
محبت بھی کرنے لگا تھا ۔ اب جب وہ اس حسینہ کے سامنے اچانک پہنچا دیا گیا تو متعجب
سا رہ گیا ۔ پہلے تو اسے اعتبارہی نہ رہا کہ حقیقت ہوسکتی ہے ۔ اس لئے اپنی آنکھیں
باربار ملیں ۔ لیکن جب اسے یقظین ہوگیا کہ وہ سچ مچ اپنے دل کی ملکہ حضور کے سامے
کھڑا ہے تو پہلے وہ دل ہی دل میں اپنی خوش نصیبی پر مالک دوجہاں کا شکر بجالایا ۔
پھر سرجھکا کر بولا۔
” اے حسینہ عالم ........!میں آپ کی کون سی خدمت سرانجام دے سکتا ہوں ۔؟
سوداگر کی بیوی مغنی کے مردانہ حسن پر پہلی ہی نظر میں فریفتہ ہوگئی ۔لیکن اپنے
ملازموں کی موجودگی میں اس نے اپنی کیفیت کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ صرف اتنا
ہی کہنے پراکتفا کی ۔
” نامو ر مغنی میں اپنے پیارے شوہر کی جدائی میں ٹرپ رہی ہوں جس کے لوٹنے کی ابھی
تین برس تک کوئی توقع نہیں ہے۔
|