|
لوہے کا کمر بند
(رام لعل)
تم مجھے کوئی ایسی غزل سناؤجس سے میرے دل کو راحت
نصیب ہو ۔ مجھے یقین ہے تمہاری پرسوز آواز میرے زخمی دل پر مرہم کاکام کرے گی ۔“
یہ کہتے کہتے وہ مغنی کی آنکھوں میں ڈوب گئی ۔لیکن پھر فوراً سنبھل سی گئی اور سر
جھکا کر بیٹھ گئی ۔ مغنی اس کی حقیقی کیفیت کچھ کچھ بھانپ گیا ۔ سوچنے لگاکہ کہیں
وہ اسی کی محبت میں گرفتار رتو نہیں ؟ ممکن ہے اپنے ملازموں کی موجودگی کے سبب سے
اس کا اظہارنہ کرسکتی ہو !بہرحال اس کی خواہش کے احترام کےلئے اس نے باہر کھڑے ہوئے
اپنے رفیقوں کو بھی اندر بلوالیا ۔ ساز بجنے لگے ۔ ڈھول پرتھاپ پڑنے لگی اور سوداگر
کی عالی شان عمارت اس کی پرسوز آواز سے گونج اٹھی ۔
مغنی نے اس کے سامنے اپنے ایک پسندیدہ شاعر کی ایک منتخب غزل چھیڑ دی ۔ جس کے ذریعے
وہ اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار بھی کرسکتا تھا ۔
زمین والوں پہ یہ عشق ستم اے آسمان کب تک
بہت نازاں ہے تو جس پر وہ دورکامراں کب تک
کہاں تک باغباں کا ناز اٹھائیں گے چمن والے
رہے گا گلشن امید برباد خزاں کب تک
اس کی آواز میں ایک عجیب سا جادو تھا ۔ جس کا اسے خود بھی احساس نہ تھا ۔ آ ج تک
جہاں بھی اس نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا ۔ وہ ہمیشہ کامیاب و کامران رہا تھا ۔
اب تو اس نے اپنی آواز میں ایک نیا جذبہ شامل کرلیاتھا ۔ وہ اپنی محبوبہ کے سامنے
بیٹھا تھا اسے یقین تھا ۔ یہاں بھی وہ کامیاب رہے گا ۔ یہ حسینہ اپنا دل ہارکر ا کے
قدموں میں رکھ دینے کےلئے ضرور مجبور ہوجائے گی ۔ جب وہ اشعار گارہا تھا ۔ اس کی
آنکھیں جذبات کی شدت سے لال ہوگئی تھیں ۔ ادھرسوداگر کی بیوی کی آنکھیں بھی باربار
غم ناک ہوجاتی تھیں لیکن دیکھنے والے یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے شوہر کو یاد کرکے
آنسو بہا رہی ہے ۔ جب مغنی نے اگلاشعر پڑھا ، تو سوداگر کی بیوی کی کیفیت اوربھی
غیرہونے لگی ۔
بجھانے سے کہیں بجھنے کی ہے یہ آتش الفت
ارے اوہ دیدہ ¿ گریاں یہ معنی رائیگاں کب تک
مغنی نے پہلے مصرعے کو اتنی مرتبہ دہرایا ۔ اس قدر ممتی سے دہرایا کہ ہرمرتبہ اس سے
ایک نیا ہی تاثر ابھرتا چلا گیا ۔ ملازموں کو اب یہ خدشہ ستانے لگا کہ ان کی مالکن
کہیں بے ہوش نہ ہوجائے ۔ اس لئے انہوں نے مغنی کو خاموش ہوکر چلے جانے کا اشارہ
کردیا ۔ لیکن سوداگر کی بیوی نے مغنی کو جانے سے روک لیا ، اور بولی ۔
” میں تم سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں ۔“
مغنی نے اپنے سارے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور خود سوداگر کی بیوی کے قدموں میں
جھک کر پھرسے بیٹھ گیا ۔ بولا۔
”فرمائیے میں حاضر خدمت ہوں ۔“
سوداگر کی بیوی کی آنکھیں ابھی تک آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں ۔ وہ خاصی دیر تک تو
کچھ نہ کہہ سکی ۔ آخر تھرتھراتی ہوئی آواز میں بولی ۔
” تمہاری آواز میں اس قدر سوز کیوں ہے ........ !کیا تم کسی سے محبت کرتے ہو ۔؟
مغنی نے جواب دیا ۔
مغنی نے جواب دیا ۔
” میرے سرسے میرے والدین کا سایہ بچپن سے اٹھ گیا تھا ۔ میں بہت چھوٹی عمر سے جگہ
جگہ گھوم رہا ہوں ۔ موسیقی سے مجھے خاص رغبت ہے ۔ اسی میں مجھے خاص تسکین ملتی ہے ۔
اب سے پہلے میں نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں ۔ اس کے متعلق میں یقین سے کچھ نہیں
کہہ سکتا۔
|