|
لوہے کا کمر بند
(رام لعل)
موسیقی بڑوں بڑوں کی کمزوری ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی تو یہ اچانک ایسا سیلاب بن جاتی ہے
۔ جس کے سامنے کئی ثابت قدم بھی ڈگمگا کر بہہ جاتے ہیں ۔ مغنی سمجھ گیا ،اپنی
محبوبہ کو وہ اب اپنے فن سے ہی شکست دے سکے گا ۔ اس لئے اس نے پوری طرح اپنے اندر
ڈوب کر ایک لے نکالی ۔
ہم سے خوئے وفا نہ چھوٹے گی تم کوئی جبراختیار کرو
اورچمکاؤ آئینہ رخ کا زلف کو اور تابدار کر و
گاتے گاتے اسے کافی دیر ہوگئی ۔ وہ بے حال ہوگیا ۔ سوداگر کی بیوی کی بھی یہی حالت
تھی ۔ آخراس نے مغنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اس کا ہاتھ پکڑ کربولی ۔
میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں ۔ زندگی بھرکرتی رہوں گی ۔
لیکن میں کسی وجہ سے مجبور بھی ہوں ، تم نہیں جانتے اس گھر کو چھوڑ کر بھی میں اپنا
آپ تمہارے حوالے نہیں کرسکوں گی ۔“
اس کے بعد اس نے مغنی کو لوہے کے کمر بند والی بات بھی بتادی جس کی چابی اس کا شوہر
اپنے ساتھ لے گیا ہوا تھا ۔ یہ سن کر مغنی ہکابکا سا رہ گیا اسے یقین نہ آیا جو کچھ
اس کی محبوبہ نے کہا تھا ۔ اس نے لباس کے اوپر سے نیچے کے کمر بند کو چھوا تب ہی
اسے یقین ہوسکا ۔ لیکن کئی لمحوں تک وہ کھڑا سوچتا رہا ۔اس کے چہرے پر کئی لہریں
آئیں اور گئیں ، آخر اس نے زبان اس طرح کھولی ۔
” میں اس کمربند کو کاٹ کر پھینک دوں گا ۔ا بھی بازارجاکر اتنے تیزاوزار لے کر آتا
ہوں جو پلک جھپکتے میں اس غیر انسانی کمر بند کو کاٹ دیں گے ۔“
یہ سن کر سوداگر کی بیوی کو غصہ آگیا ، بولی ۔
” یہ کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیںآتی ۔ کیا تمہارے خیال میں جب تم لوہے کے کمربند کو
کاٹ رہے ہوگے تو میں تمہارے سامنے کپڑے اتار کر کھڑی رہوں گی ۔ “
مغنی نے اپنی غلطی کےلئے فوراً معذرت چاہی ۔ لیکن ساتھ ہی اس نے ایک اور تجویز بھی
پیش کردی ۔
یہ کام میں اپنے ایک لوہار دوست کے بھی سپرد کرسکتا ہوں ۔ میں اس کی آنکھوں پر پٹی
باندھ دوں گاتاکہ وہ تمہاری حسین کمر پر نگاہ نہ ڈال سکے ۔ لیکن وہ اپنے کام میں
اتنا ماہر ہے کہ آنکھیں بند ہونے پر بھی وہ اپنا کام حسب خواہش انجام دے لے گا ۔“
سوداگر کی بیوی نے یہ بات بھی منظور نہ کی اور مغنی سے کہا ۔ ” جاؤ اورمجھے میرے
حال پر چھوڑ دو۔“
مغنی کو وہاں سے جاتے جاتے ایک ایک اوربات کا خیال آیا چنانچہ اس نے پلٹ کرکہا م ”
حسین عورتوں کا سب سے بڑا دشمن ان کا موٹاپا ہوتا ہے ۔ اگر آپ اپنا وزن کم کرنا
شروع کردیں تو آپ کے جسم کی کشش بھی برقرار رہے گی اوراس کمربند سے بھی نجات حاصل
ہوجائے گی ۔ “
سوداگر کی بیوی اچھی چھی مرغن غذاؤں کی بڑی دلدادہ تھی ۔ اس قسم کی تجویز کو وہ
کسی صورت میں قبول نہیں کرسکتی تھی ۔ چمک کربولی ۔
” اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہاری خاطر میں خود کو بھوکا ماروں !
کھانا پینا چھوڑ دوں!
لیکن بھوکا پیاسا رہنے سے بیمارپڑجانے کا بھی تو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔
پھربھلا تم میری طرف نظراٹھا کر بھی کیوں دیکھو گے ۔ جاؤ جاؤ تمہاری ایک بھی
تجویز معقول نہیں ہے۔
مغنی کا دل بھی ٹوٹ گیا ۔ بہت افسردہ ہوکراب وہ وہاں سے جانے والا تھا کہ پلٹ کر
پھرآیا اوربولا ۔
” خدا کے لئے میری ایک تجویز پر غور ضرور فرما لیجئے کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت
دے سکتی ہیں۔
|