|
ماں جی
(قدرت اللہ شہاب)
ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہیں ہو سکا۔
جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہورہا تھا۔ پنجاب کے ہر قصبے سے غریب
الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھینچے چلے آرہے
تھے۔ عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو ”بار“ کا علاقہ کہا جاتا تھا۔
اس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش پچھلی صدی کے
آخری دس پندرہ سالوں میں کسی وقت ہو ئی ہو گی۔
ماں جی کا آبائی وطن تحصیل روپڑ ضلع انبالہ میں ایک گاؤں منیلہ نامی تھا۔ والدین
کے پاس چند ایکڑ اراضی تھی ۔ ان دنوں روپڑ میں دریائے ستلج سے نہر سرہند کی کھدائی
ہو رہی تھی۔ نانا جی کی اراضی نہر کی کھدائی میں ضم ہو گئی۔ رو پڑ میں انگریز حاکم
کے دفتر سے ایسی زمینوں کے معاوضے دئیے جاتے تھے۔ نا نا جی دو تین بار معاوضے کی
تلاش میں شہر گئے۔ لیکن سیدھے آدمی تھے۔ کبھی اتنا بھی معلوم نہ کر سکے کہ انگریز
کا دفتر کہاں ہے اور معاوضہ وصول کرنے کے لئے کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ انجام کار صبر
و شکر کرکے بیٹھ گئے اور نہر کی کھدائی کی مزدوری کرنے لگے۔
انہی دنوں پرچہ لگا کہ بار میں کالونی کھل گئی ہے اور نئے آباد کاروں کو مفت زمین
مل رہی ہے۔ نا نا جی اپنی بیوی، دو ننھے بیٹوں اور ایک بیٹی کا کنبہ ساتھ لے کر
لائل پور روانہ ہو گئے۔ سواری کی توفیق نہ تھی۔ اس لئے پا پیادہ چل کھڑے ہو ئے۔
راستے میں محنت مزدوری کر کے پیٹ پالتے۔ نا نا جی جگہ بہ جگہ قلی کا کام کرلیتے یا
کسی ٹال پر لکڑیاں چیر دیتے۔ نانی اور ماں جی کسی کا سوت کات دیتیں یا مکانوں کے
فرش اور دیواریں لیپ دیتیں۔ لائل پور کا صحیح راستہ کسی کو نہ آتا تھا جگہ جگہ
بھٹکتے تھے اور پوچھ پاچھ کر دنوں کی منزل ہفتوںمیں طے کرتے تھے۔
ڈیڑھ دو مہینے کی مسافت کے بعد جڑانوالہ پہنچے۔ پا پیادہ چلنے اور محنت مزدوری کی
مشقت سے سب کے جسم نڈھال اور پاؤں سوجے ہوئے تھے۔ یہاں پر چند ماہ قیام کیا۔ نا
نا جی دن بھر غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کرتے۔ نانی پرچہ کات کر سوت بیچتیں
اور ماں جی گھر سنبھالتیں جو ایک چھوٹے سے جھونپڑے پر مشتمل تھا۔
انہی دنوں بقر عید کا تہوار آیا۔ نا نا جی کے پاس چند روپے جمع ہو گئے تھے۔ انہوںنے
ماں جی کو تین پنے بطور عیدی دئیے۔ زندگی میں پہلی بار ماں جی کے ہاتھ اتنے پیسے
آئے تھے۔ انہوںنے بہت سوچا لیکن اس رقم کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آسکا۔ وفات
کے وقت ان کی عمر کوئی اسی برس کے لگ بھگ تھی۔ لیکن ان کے نزدیگ سو روپے، دس روپے،
پانچ روپے کے نوٹوں میں امتیاز کرنا آسان کام نہ تھا عیدی کے تین آنے کئی روز ماں
جی کے دوپٹے کے ایک کونے میں بندھے رہے۔ جس روز وہ جڑانوالہ سے رخصت ہو رہی تھیں
ماں جی نے گیارہ پیسے کا تیل خرید کر مسجد کے چراغ میں ڈال دیا۔ باقی ایک پیسہ اپنے
پاس رکھا۔ اس کے بعد جب کبھی گیارہ پیسے پورے ہو جاتے تو وہ فوراً مسجد میں تیل
بھجوا دیتیں۔
ساری عمر جمعرات کی شام کو اس عمل پر بڑی وضعداری سے پابند رہیں۔ رفتہ رفتہ بہت سی
مسجدوںمیں بجلی آگئی۔ لیکن لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں بھی انہیں ایسی مسجدوں
کا علم رہتا تھا جن کے چراغ اب بھی تیل سے روشن ہوتے تھے۔
|