|
ماں جی
(قدرت اللہ شہاب)
عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو
بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اتروالیں۔ ایک بالی اتارنے میں ذرا دیر ہوئی تو اس
نے زور سے کھینچ لی۔ جس سے ماں جی کے کان کا زیریں حصہ بری طرح سے پھٹ گیا۔
چک ۶۰۵ سے نکل کر جو راستہ سامنے آیا اس پر چل کھڑے ہوئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دن بھر
لو چلتی تھی۔ پانی رکھنے کے لئے مٹی کا پیالہ بھی پاس نہ تھا۔ جہاں کہیں کوئی کنواں
نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے سے اپنے چھوٹے بھائیوں کی
چساتی جائیں ۔ اس طرح وہ چلتے چلتے چک نمبر۷۰۵ میں پہنچے جہاں ایک جان پہچان کے
آباد کار نے نا نا جی کو اپنا مزارع رکھ لیا۔ نا نا جی ہل چلاتے تھے۔ نانی مویشی
چرانے لے جاتی تھیں۔ ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی بھینسوں اور
گایوں کے لئے لایا کرتی تھیں۔ ان دنوں انہیں مقدور بھی نہ تھا کہ ایک وقت کی روٹی
بھی پور ی طرح کھا سکیں۔ کسی وقت جنگلی بیروں پر گزارہ ہوتا تھا۔ کبھی خربوزے کے
چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے۔ کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل گئیں تو ان
کی چٹنی بنا لیتے تھے۔ اور کنٹھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آگیا ۔ نانی محنت مزدوری میں
مصروف تھیں۔ ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا۔ جب پک کر تیار ہو گیا اور ساگ کا الن
لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسے زور سے چلائی کہ ہنڈیا کا پیندا
ٹوٹ گیا اور سارا ساگ بہہ کر چولہے میں آپڑا۔ ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار
بھی۔ رات کو سارے خاندان نے چولہے کی لکڑیوں پر گرا ہوا ساگ انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر
کسی قدر پیٹ بھرا۔
چک نمبر۷۰۵ نانا جی کو خوب راس آیا۔ چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری
کے سلسلے میں آسان قسطوں پر ان کو ایک مربع زمین مل گئی۔ رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے
اور تین سال میں ان کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہونے لگا۔ جوں جوں فارغ
البالی بڑھتی گئی توں توں آبائی وطن کی یاد ستانے لگی۔ چنانچہ خوشحالی کے چار پانچ
سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف روانہ ہوا۔ ریل کا سفر
ماں جی کو بہت پسند آیا۔ وہ سارا وقت کھڑکی سے باہر منہ نکال کر تماشہ دیکھتی
رہتیں۔ اس عمل میں کوئلے کے بہت سے ذرے ان کی آنکھوں میں پڑگئے۔ جس کی وجہ سے کئی
روز تک وہ آشوب چشم میں مبتلا رہیں۔ اس تجربے کے بعد انہوںنے ساری عمراپنے کسی بچے
کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی۔
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچوں سے فوراً
گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس
کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔ ایک دو بار جب انہیں مجبوراً
ائیرکنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہوگئیں اور سارا وقت قید کی
صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔
منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحاف دئیے۔
دعوتیں ہوئیں اور پھرماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس زمانے میں لائل پور کے مربعہ داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با
عزت لوگوں میں ہو تا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے پیام آنے
لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے
لئے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر
رکھتی تھیں۔
کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کر نے لئے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔
ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دو بھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ
ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اورکہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربعہ دار کی بیٹی جارہی ہے۔
دیکھئے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔
”ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا!“ ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر
ان سے پوچھا کرتے۔
|