|
ماں جی
(قدرت اللہ شہاب)
”توبہ توبہ پت“ ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں ” میر ی نظر میں بھلا کوئی کیسے ہو
سکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو
دوحرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی“۔
ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لئے
پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کردیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبد اللہ صاحب
سے ہو گئی۔
ان دنوں سارے علاقے میں عبد اللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر
گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہوگئے اوربے حد
مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی
جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ
آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کرلیا جو
مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبد اللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل
کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کرکے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال
میں پاس کرکے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اول آئے ۔ اس زمانے میں غالباً یہ
پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔
اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد
رکھ چکے تھے۔ انہوںنے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبد اللہ صاحب کو وظیفہ
دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے
کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچر
ہو گئے۔
سرسید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ
ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوںنے عبد اللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ
انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔
پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبد
اللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کردیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت
مندی آڑے آئی اور انہوںنے وظیفہ واپس کردیا۔
اس حرکت پر سر سید کے بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوںنے لاکھ سمجھایا،
بجھایا، ڈرایا دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔
”کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟“ سرسیدنے کڑک کر پوچھا۔
”جی ہاں“ عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔
یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہوگئے۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے پہلے
انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی
نوکری سے برخواست کرکے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا ”اب تم ایسی جگہ جا کر مرو
جہاں سے میں تمہارا نا م بھی نہ سن سکوں“۔
عبد اللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے۔ اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر
انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ ناک کی سیدھ
میںگلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے۔
جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی انہی دنوں عبد اللہ صاحب بھی چھٹی پر
گاؤں آئے ہوئے تھے ۔ قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا۔ ان کی منگنی ہو گئی
اور ایک ماہ بعدشادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبد اللہ صاحب دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے
جائیں۔
منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے
گئی ہوئی تھیں۔ اتفاقاً یا شاید دانستہ عبد اللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔
|