|
ماں جی
(قدرت اللہ شہاب)
ماں جی کی سہیلیوں نے انہیں گھیرلیا اورہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر ان سے پانچ پانچ
روپے وصول کرلئے۔عبد اللہ صاحب نے ماں جی کو بھی بہت سے روپے پیش کیے لیکن انہوںنے
انکار کردیا۔ بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
”اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کروگی“ عبد اللہ صاحب نے پوچھا۔
اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈال دوں گی۔ ما ں جی نے جواب دیا۔
زندگی کے میلے میں بھی عبد اللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے
گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔ اس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوںنے مانگی نہ اپنے پاس
رکھی۔
گلگت میں عبد اللہ صاحب کی بڑی شان و شوکت تھی۔ خوبصورت بنگلہ، وسیع باغ، نوکر چاکر
دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ۔ جب عبد اللہ صاحب دورے پر باہر جاتے تھے یا واپس آتے
تھے تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یوں بھی گلگت کا گور نر خاص سیاسی انتظامی
اور سماجی اقتدار کا حامل تھا لیکن ماں جی پر اس سارے جاہ و جلال کا ذرہ بھی اثر نہ
ہوا۔ کسی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہوتا تھا۔ بلکہ ماں جی کی اپنی
سادگی اور خود اعتمادی ہر ماحول پر خاموشی سے چھا جاتی تھی۔
ان دنوں سر مالکم ہیلی حکومت برطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدو پر
پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر مامور تھے۔ ایک روز لیڈی ہیلی اور ان کی بیٹی ماں جی سے
ملنے آئیں۔ انہوں نے فراک پہنے ہوئے تھے اور پنڈلیاں کھلی تھیں۔ یہ بے حجابی ماں جی
کو پسند نہ آئی۔ انہوںنے لیڈی ہیلی سے کہا ” تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی گزرہی
گئی ہے۔ اب آپ اپنی بیٹی کی عاقبت تو خراب نہ کرو۔“ یہ کہہ کر انہوںنے مس ہیلی کو
اپنے پاس ملازم رکھ لیا اور چند مہینوں میں اسے کھانا پکانا، سینا پرونا، برتن
مانجھنا، کپڑے دھونا سکھا کر ماں باپ کے پاس بھیج واپس بھیج دیا۔
جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچر سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔ ان کے
اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا اہتمام ہوا۔ ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ
قسم کے کھانے پکائے۔ کھانے لذیذ تھے۔ لارڈ کچر نے اپنی تقریر میں کہا ” مسٹر گورنر،
جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں، براہ مہربانی میری طرف سے آپ ان کے ہاتھ چوم
لیں“۔
دعوت کے بعد عبد اللہ صاحب فرحاں و شاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی خانے
کے ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھارہی
ہیں۔
ایک اچھے گورنر کی طرح عبد اللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا ”اگر لارڈ کچر
یہ فرمائش کرتا کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں؟“
”میں“ ماں جی تنک کر بولیں۔ ” میں اس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیتی۔ پھر آپ
کیا کرتے ؟“
”میں“ عبد اللہ صاحب نے ڈرامہ کیا۔ ”میں ان مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے
کے پاس بھیج دیتا اور تمہیں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا، جیسے سرسید کے ہاں سے
بھاگا تھا“۔
ماں جی پر ان مکالموں کا کچھ اثرنہ ہوتا تھا۔ لیکن ایک بار.... ماں جی رشک و حسد کی
اس آگ میں جل بھن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔
گلگت میں ہر قسم کے احکامات ”گورنری“ کے نام پر جاری ہوتے تھے۔ جب یہ چرچا ماں جی
تک پہنچا تو انہوںنے عبد اللہ صاحب سے گلہ کیا۔
|