|
ماں جی
(قدرت اللہ شہاب)
”بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام
بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خواہ مخواہ!“
عبد اللہ صاحب ”علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور بے اعتنائی سے
فرمایا۔ بھاگوان یہ تمہارا نام تھوڑا ہے۔ گورنر تو در اصل تمہاری سوکن ہے جو دن رات
میرا پیچھا کرتی رہتی ہے“۔
مذاق کی چوٹ تھی ۔ عبد اللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہوگئی لیکن ماں جی کے دل میں
غم بیٹھ گیا۔ اس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔
کچھ عرصہ کے بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر
گیا۔ ماں جی نے مہارانی سے اپنے دل کا حال سنایا۔ مہارانی بھی سادہ عورت تھی۔ جلال
میں آگئی ”ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم۔ میں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ
عبد اللہ صاحب کی خبر لیں“۔
جب یہ مقدمہ مہاراجہ پرتاب سنگھ تک پہنچا تو انہوں نے عبد اللہ صاحب کو بلا کر پوچھ
گچھ کی۔ عبد اللہ اصاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آپڑی۔ لیکن جب
معاملے کی تہہ تک پہنچے تو دونوں خوب ہنسے۔آدمی دونوں ہی وضعدار تھے۔ چنانچہ
مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیر وزارت
کے نام سے پکاراجائے۔ ۷۴۹۱ءکی جنگ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج
تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلاکر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری
کودیس نکالا دے دیا ہے۔
”اب تم دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو“۔ مہارانی نے کہا۔ ”کبھی ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔“
مہاراجہ اور مہارانی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش
کرتے تھے۔
اولاد کے معاملے میں ماں جی کیا واقعی خوش نصیب تھیں؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے
جس کا جواب آسانی سے نہیں سوجھتا۔
ماں جی خود ہی تو کہا کرتی تھیں کہ ان جیسی خوش نصیب ماں دنیا میں کم ہی ہوتی ہیں۔
لیکن اگر صبر و شکر، تسلیم و رضا کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو اس خوش نصیب کے
پردے میں کتنے دکھ، کتنے غم، کتنے صدمے نظر آتے ہیں۔
اللہ میاں نے ماں جی کو تین بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کئے۔ دو بیٹیاں شادی کے کچھ
عرصہ بعد یکے بعد دیگرے فوت ہوگئیں۔ سب سے بڑا عین عالم شباب میں انگلستان جا کر
گزر گیا۔
کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیا کہ اللہ کا مال تھا اللہ نے لے لیا۔ لیکن کیاوہ اکیلے
میں چھپ چھپ کر خون کے آنسو رویانہ کرتی ہوگی!
جب عبد اللہ صاحب کا انتقال ہوا تو ان کی عمر باسٹھ سال اور ماں جی کی عمر پچپن سال
تھی۔سہ پہر کا وقت تھا۔ عبد اللہ صاحب بان کی کھردری چارپائی پر حسب معمول گاؤ تکیہ
لگا کر نیم دراز تھے۔ ماں جی پائنتی بیٹھی چاقو سے گنا چھیل چھیل کر ان کو دے رہی
تھیں۔ وہ مزے مزے سے گنا چوس رہے تھے اورمذاق کر رہے تھے۔ پھر یکا یک سنجیدہ ہو گئے
اور کہنے لگے۔ ”بھاگوان شادی سے پہلے میلے میں میں نے تمہیں گیارہ پیسے دئیے تھے
کیا ان کو واپس کرنے کا وقت نہیں آیا؟“
ماں جی نے نئی دلہنوں کی طرح سر جھکا لیا اور گنا چھیلنے میں مصروف ہو گئیں۔ ان کے
سینے میں بیک وقت بہت خیال امڈ آئے۔ ” ابھی وقت کہاں آیا ہے۔ سرتاج شادی کے پہلے
گیارہ پیسوں کی تو بڑی بات ہے۔ لیکن شادی کے بعد جس طرح تم نے میرے ساتھ نباہ کیا
ہے اس پر میں نے تمہارے پاؤں دھو کر پینے ہیں۔ اپنی کھال کی جوتیاں تمہیں پہنانی
ہیں۔ ابھی وقت کہاں آیا ہے میرے سرتاج۔
|