|
ماں جی
(قدرت اللہ شہاب)
لیکن قضاو قدر کے بہی کھاتے میں وقت آچکا تھا۔ جب ماں جی نے سر اٹھایا
تو عبد اللہ صاحب گنے کی قاش منہ میں لئے گاؤ تکیہ پر سو رہے تھے۔ ماں جی نے بہتیرا بلایا،
ہلایا، چمکارا لیکن عبد اللہ صاحب ایسی نیند سو گئے تھے جس سے بیداری قیامت سے پہلے
نہیں۔
ماں جی نے اپنے باقی ماندہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو سینے سے لگا لگا کر تلقین کی ”
بچہ رونا مت۔ تمہارے ابا جی آرام سے سو رہے تھے، اسی آرام سے چلے گئے۔ اب رونا مت۔
ان کی روح کو تکلیف پہنچے گی“۔
کہنے کو تو ماں جی نے کہہ دیاکہ اپنے ابا کی یاد میں نہ رونا، ورنہ ان کو تکلیف
پہنچے گی لیکن کیا وہ خود چوری چھپے اس خاوند کی یاد میں نہ روئی ہو ں گی جس نے
باسٹھ سال کی عمر تک انہیں ایک الہڑ دلہن سمجھا اور جس نے گورنری کے علاوہ اور کوئی
سوکن اس کے سرپر لا کر نہیں بٹھائی۔
جب وہ خود چل دیں تو اپنے بچوں کے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئیں، جو قیامت تک
انہیں عقیدت کے بیابان میں سرگرداں رکھے گا۔
اگر ماں جی کے نام پرخیرات کی جائے تو گیارہ پیسے سے زیادہ ہمت نہیں ہوتی، لیکن
مسجد کا ملا پریشان ہے کہ بجلی کا ریٹ بڑھ گیا ہے اور تیل کی قیمت گراں ہو گئی ہے۔
ماں جی کے نام پر فاتحہ دی جائے تو مکئی کی روٹی اور نمک مرچ کی چٹنی سامنے آتی ہے
لیکن کھانے والا درویش کہتا ہے کہ فاتحہ درود میں پلاؤ اور زردے کا اہتمام لازم
ہے۔
ماں جی کا نام آتا ہے تو بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اگر رویا جائے تو ڈر
لگتا ہے کہ ان کی روح کو تکلیف نہ پہنچے اور اگر ضبط کیا جائے تو خدا کی قسم ضبط
نہیں ہوتا۔
|