|
آپا
(مُمتاز مُفتی)
بھائی جان نے باجی کی طرف دیکھا۔ پھر جانے
انہیں کیا ہوا۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں باجی کے چہرے پر گڑ گئیں۔، جانے
کیوں میں نے محسوس کیا جیسے کوئی زبردستی مجھے کمرے سے باہر گھسیٹ رہا ہو۔ میں باہر
چلی آئی۔ باہر آپا، الگنی کے قریب کھڑی تھی۔ اندر بھائی صاحب نے مدھم آواز میں کچھ
کہا۔ آپا نے کان سے دوپٹہ سرکا دیا۔ پھر باجی کی آواز آئی۔ ”چھوڑئیے چھوڑئیے“ اور
پھر خاموشی چھا گئی۔
اگلے دن ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ اس وقت بھائی جان اپنے کمرے میں پڑھ رہ تھے ۔ بدو
بھی کہیں ادھر ادھر کھیل رہا تھا۔ باجی حسب معمول بھائی جان کے کمرے میں چلی گئی،
کہنے لگی۔”آج ایک دھندناتا بورڈ کر دکھاو ¿ں۔ کیا رائے ہے آپ کی ؟‘ذ بھائی جان
بولے۔ ”واہ،یہاں سے کک لگاو ¿ں تو جانے کہاں جا پڑو۔“ غالباً انہوں نے باجی کی طرف
زور سے پیر چلا یا ہو گا۔ وہ بناوٹی غصے سے چلائی۔ ”واہ آپ تو ہمیشہ پیر ہی سے
چھیڑتے ہیں!“ بھائی جان معاً بول اٹھے ” تو کیا ہاتھ سے....“ ”چپ....خاموش۔“ باجی
چیختی۔ اس کے بھاگنے کی آواز آئی۔ ایک منٹ تک تو پکڑ دھکڑ سنائی دی۔ پھر خاموشی چھا
گئی۔
اتنے میں کہیں سے بدو بھاگتا ہوا آیا کہنے لگا۔ ”آپا اندر بھائی جان سے کشتی لڑے
رہے ہیں۔ چلو دکھاو ¿ں تمہیں چلو بھی۔“ وہ آپا کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ آپ کا
رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا اور وہ بت بنی کھڑی تھی۔ بدو نے آپا کو چھوڑ دیا۔
کہنے لگا۔ ”اماں کہا ں ہے؟“ اور وہ ماں کے پاس جانے کے لئے دوڑا۔ آپا نے لپک کر اسے
گودمیں اٹھالیا۔ ”آو ¿ تمہیں مٹھائی دوں۔“ بدوبسورنے لگا۔ آپا بولیں ”آو ¿ دیکھو تو
کیسی اچھی مٹھائی ہے میرے پاس ۔“ اور اسے باورچی خانے میں لے گئی۔
اسی شام میں نے اپنی کتابوں کی الماری کھولی تو اس میں آپا کی ہارٹ بریک ہاو ¿س پڑی
تھی۔ شاید آپا نے اسے وہاں رکھ دیا ہو۔ میں حیران ہوئی کہ بات کیاہے مگر آپا باورچی
خانے میں چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس کے پیچھے فروٹ سلاد کی کشتی
خالی پڑی تھی۔ البتہ آپا کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔
بھائی تصدق اور باجی کی شادی کے دو سال بعد ہمیں پہلی بار ان کے گھر جانے کا اتفاق
ہوا۔ اب باجی وہ باجی نہ تھی۔ اس کے وہ قہقہے بھی نہ تھے ۔ اس کا رنگ زرد تھا اور
ماتھے پر شکن چڑھی تھی۔ بھائی صاحب بھی چپ چاپ رہتے تھے۔ ایک شام اماں کے علاوہ ہم
سب باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ بھائی کہنے لگے۔ بدو ساجو باجی سے بیاہ کرو گے؟
”اونہہ!“ بدو نے کہا۔ ”ہم باہ کریں گے ہی نہیں۔“
میں نے پوچھا۔ ”بھائی جان یاد ہے جب بدو کہا کر تا تھا۔ ہم تو چھاجو باجی سے باہ
کریں گے۔ “ اماں نے پوچھا ”آپا سے کیوں نہیں؟“ تو کہنے لگا ”بتاو ¿ں آپا کیسی ہے؟“
پھر چولھے میں جلے ہوئے اپلے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا۔ ”ایسی!“ اور چھاجو باجی؟
میں نے بدو کی طرح بجلی کے روشن بلب کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔”ایسی!“ عین اسی وقت
بجلی بجھ گئی اور کمرے میں انگروں کی روشنی کے سوا اندھیرا چھا گیا۔ ”ہاں یاد ہے!“
بھائی جان نے کہا۔ پھر جب باجی کسی کام کے لئے باہر چلی گئی تو بھائی کہنے لگے۔ ”نہ
جانے اب بجلی کو کیا ہو گیا۔ جلتی بجھتی رہتی ہے۔“ آپا چپ چاپ بیٹھی چولھے میں راکھ
سے دبی ہوئی چنگاریوں کو کرید رہی تھی۔ بھائی جا ن نے مغموم سی آواز میں کہا ”اف
کتنی سردی ہے۔“ پھر اٹھ کر آپا کے قریب چولہے کے سامنے جا بیٹھے اور ان سلگتے ہوئے
اپلوں سے آگ سینکنے لگے۔ بولے۔ ”ممانی سچ کہتی تھیں کہ ان جھلسے ہوئے اپلوں میں آگ
دبی ہوتی ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔ کیوں سجدے؟“ آپا پرے سرکنے لگی تو چھن سی
آواز آئی جیسے کسی دبی ہوئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ہو۔ بھائی جان منت بھری
آواز میں کہنے لگے۔ ”اب اس چنگاری کو تو نہ بجھاو ¿ سجدے، دیکھو توکتنی ٹھنڈ ہے۔۔
|