|
مٹی کی مونا لیزا
(اے۔ حمید)
مہینے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پیٹتا ہے تو
ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ اب وہ اس ہر ماہ کے خرچ سے بچنے کے لئے سونے
کے موٹے کنگن بنوا رہی ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہیں سکیںگے۔ صغراں بی بی کے چاروں
بچوں کا رنگ بھی زرد ہے اور ہڈیا ں نکلی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کیلشیم کے
ٹیکے لگاؤ۔ ہر روز صبح مکھن، پھل، انڈے ، گوشت اور سبزیاں دو۔ شام کو اگر یخنی کا
ایک ایک پیالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے۔ اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں،
بد بودار محلوں اور اندھیری کوٹھڑیوں سے دور رکھو۔ صغراں بی بی کا خیال ہے کہ وہ
اگلی سے اگلی تنخواہ پر گلبرگ یا کینال پارک میں کسی جگہ ان بچوں کے لئے زمین کا
چھوٹا سا ٹکڑا لے کر وہاں ایک چھوٹا سا تین چار کمروں والا مکان بنوالے گی۔ دو
چھوٹے بچے اب اسکول بھی نہیں جاتے لیکن انشاءاللہ تعالیٰ وہ بھی ایک دن سکول جانا
شروع کردیں گے اور جو دو بچے مزید پیدا ہوں گے وہ بھی سکول ضرور جائیں گے۔اب کی
دفعہ وہ انہیں کانونٹ میں داخل کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جہاں وہ ہر صبح خدا کے
بیٹے کی دعا پڑھیں۔ صغراں بی بی کو ممی کہیں، فر فر انگریزی بولیں اور اردو فارسی
پڑھ کر تیل بیچنے کی بجائے مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں اور اونچا مرتبہ اور لمبی
کار اور چوڑے لان والی کوٹھی پائیں۔
کیلشیم کے ٹیکوں کا پورا سیٹ بیس روپے میں آتا ہے۔ یہ تو معمولی بات ہے۔ اب کی وہ
اپنے خاوند سے کہے گی کہ ڈاک خانے سے پہلی تاریخ کو گھر آتے ہوئے دو سیٹ لیتے آؤ۔
اپنی کوٹھڑی والا ریفریجریٹر اس نے لال لال سیبوں، سرخ اناروں، موٹے انگوروں، مکھن
کی ٹکیوں، تازہ انڈوں اور گوشت کے قتلوں سے بھردیاہے۔ بچے سارا مہینہ مزے سے کھائیں
گےاور موج اڑائیں گے۔ لیکن خدا کی دی ہوئی ہر نعمت کے ہوتے ہوئے بھی صغراں بی بی کے
رخسار کی ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئی ہیں،۔ کمر میں مستقل درد رہتا ہے، چہرہ زرد ہو کر
پیلا پڑگیا ہے، آنکھیں پھٹی پھٹی سی، ویران ویران سی رہتی ہیں۔ ان آنکھوں نے
کیادیکھ لیا ہے؟ اس کی عمر پچیس سال سے زیادہ نہیں۔ مگر اس کا جسم ڈھل گیاہے اندر
ہی اندر گھل گیاہے۔ ہاتھ کی نسیں ابھر آئی ہیں۔ کنگھی کرتے ہوئے ڈھیروں بال جھڑتے
ہیں۔ ہاتھ پیر ہر وقت ٹھنڈے رہتے ہیں جس طرح ریفریجریٹر میں کریم ، پھل اور گوشت
ٹھنڈا رہتا ہے۔
صغراں بی بی کی شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں اور خاوند نے اسے صرف چار بچے عطا کئے
ہیں۔خدا اسے سلامت رکھے ابھی اور بچے پیدا ہو ں گے۔ہر پہلی تاریخ کو اس کے خاوند کو
صغرا بی بی سے محبت ہو جاتی ہے۔ جب بیس روپے دودھ والا لے جاتا ہے تو محبت کے اس
تاج کا ایک برج گرتا ہے۔ پانچ روپے کرایہ جاتا ہے تو دوسرا برج گرتا ہے ۔ پھر بچوں
کی فیسیں، کاپیاں، پنسلیں، کتابیں، راشن، دال، آٹا، نمک، مرچ، ہلدی، اوپلے،کپڑا،
پریشانی، تفکرات، وسوسے، ملال اور نا امیدیاں اور یہ تاج محل گنبد سمیت زمین کے
ساتھ آن لگتا ہے۔ اور خاوند اپنی محبت کی پٹاری میں سے ڈنڈا نکال کر اپنی پہلی
تاریخ کی محبوبہ کی پٹائی شروع کردیتا ہے۔
ونڈر فول ہوم!
”ڈیڈی! آج آپ کامک نہیں لائے!“
”او ممی! یہ جیلی گندی ہے اسے پھینک دیں۔“
”کم آن ڈارلنگ صغرا بی بی ! آج الحمراءمیں کلچرل شو دیکھیں۔ ڈانس، میوزک، او وٹ اے
تھرل! ہنی! بس یہ وائیٹ ساڑھی خوب میچ کرے گی اور اس کے ساتھ بالوں میں سفید موتیے
کے پھولوں کا گجرا....ما ئی مائی! یو آر سویٹ ڈارلنگ صغرا بی بی !“
ندی کنارے یہ کاٹیج کس قدر خوبصورت ہے۔ سرسبز لان، ترشی ہوئی گھاس، قطار میں لگے
ہوئے پھولوں کے پودے.... ایک ملازم غسل خانے میں لکس صابن سے کتے کو نہلا رہا ہے۔
اس کے بعد تولیے سے اس کا جسم خشک کیاجائے گا۔ کنگھی پھیری جائے گی۔ گلے میں ایپرن
باندھا جائے گا، اور اسے دو آدمیوں کا کھانا کھلا جائے گا اور پھر فورڈ کار میں
بیٹھ کر مال روڈ کی سیر کروائی جائے گی۔ آج اگر گوتم بدھ زندہ ہوتا تو وہ جانوروں
کے ساتھ انسانوں کی اتنی شدید محبت کو دیکھ کر کتنا خوش ہوتا۔
|