|
مٹی کی مونا لیزا
(اے۔ حمید)
”میں یو کے سے واپس آتے ہی تم سے شادی کرلوں گا۔“
”تم وہاں شادی کرکے آؤ گے۔“
”نو....نیور.... تم خود دیکھ لو گی۔ پھر ہم دونوں یو کے چلے جائیں گے۔ اور وہیں جا
کر سیٹل ہوجائیں گے۔ میں اس گندے شہر سے بور ہو گیا ہوں....بیرا!“
”یس سر۔“
”ایک کریم پف....“
”یس سر۔“
”ووڈ یو لائیک مور ڈارلنگ؟“
”نو تھینک یو....“
میں بھی سوچ رہا ہوں کہ یو کے جا کے سیٹل ہو جاؤں۔ میں بھی اپنی گندی گلیوں سے
بور ہو گیا ہوں۔ شاید میں صغرا بی بی اور اس کی گلی میں کھڑی چارپائی پر ماں کے
ساتھ سونے والے پھنسی زدہ بچوں کو بھی لیتا جاؤں۔
”بیرا....تھری سکویش مور۔“
اوپر گیلری کو جانے والی سیڑھیوں کے پاس والی میز پر تین میڈیکل سٹوڈنٹ بیٹھے باتیں
کر رہے ہیں۔ گفتگو برجی باردو کے کولھوں، ایگا تھا کرسٹی کے ناولوں اور پکاڈلی کی
پر اسرار گلیوں سے ہو کر میڈیکل پیشے میں آکر ٹھہر گئی ہے۔
”یار! میں تو فائنل سے نکل کر سیدھا لندن چلا جاؤں گا۔ یہاں کوئی فیوچر نہیں ہے۔“
”بالکل.... میں بھی وہیں جاکر پریکٹس کروں گا۔ بردار وہاں پیسہ بھی ہے اور مریض بھی
بڑے پالشڈ ہوتے ہیں۔“
”یار میں تو یو کے جا کر کینسر ٹریٹمنٹ سپیشلائز کروں گا ۔ یہاں کینسرسپیشلسٹ کے
بڑے چانسز ہیں۔ بیس روپے فیس رکھوں گا اور ایک سال بعد اپنا کریم کلر کی ففٹی ایٹ
ماڈل شو ہو گی اور گلبرگ میں ایک کوٹھی....“
”بھئی یار تم نے ہل مین کیوں بیچ دی؟“
”چھکڑا ہو گئی تھی۔ آئل بڑا کھانے لگی تھی۔“
”شی!.... مس قریشی آرہی ہے۔“
”صدیقی ! تم نے اس کی بڑی بہن مسز ارشاد کو پرسوں گرفن میں دیکھا تھا؟ ارے بھئی۔ تم
ساتھ ہی تو تھے ۔ کیا کلاس ون عورت ہے۔“
”نو ڈاؤٹ.... بالکل لولو بریجڈا....“
سب لوگ پاکستان سے باہر جارہے ہیں۔ کوئی برجی بارود کے پاس ، کوئی لولو بریجڈا کے
پاس، کسی کو بیوی لئے جار ہی ہے، کوئی بیوی کو لئے جارہا ہے، کسی کو پیسہ کھینچ رہا
ہے اور کسی کو پالشڈ قسم کے مریض۔ ہم لوگ کہاں جائیں؟ میرا بھائی ڈاکیہ کہاں جائے
گا؟ صغرا بی بی کہا ں جائے گی؟ اس کے بیمار بچوں کا علاج کون کرے گا؟ مثانے کی
بیماری میں نیم حکیم سے گردے کی درد کی دوا کھا جانے والے دیہاتی کہاں جائیں گے؟ ان
لوگں کا علاج پاکستان میں کون کرے گا؟
کونے والی میز پر ایک پاکستانی آدمی امریکیوں کی طرح کندھے اچکا کر اپنے ساتھی کو
کہہ رہا ہے۔
”بڑی پرابلم بن گئی ہے۔“
”کیسی پرابلم؟“۔
|