|
مٹی کی مونا لیزا
(اے۔ حمید)
”بے بی نے تین سال لوئر کے جی میں لگائے ہیں۔ کراچی سے یہاں تبدیل ہو کر آگیا ہوں۔
یہاں کسی انگریزی سکول میں داخلہ نہیں مل رہا۔ کارپوریشن کے سکول والے بی بے کو پھر
سے دوسری جماعت میں لے رہے ہیں۔ کہتے ہیں بچے کو اردو نہیں آتی۔ بھئی وہ تو سوائے
انگریزی کے اور کچھ بولتا ہی نہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آرہا کیاکروں؟“
”اردو کو گولی مارو....اب اسے فرانسیسی پڑھا گھر پر۔“
ہوٹل میں بڑی رونق ہو گئی ہے۔ یہ بڑی رومانٹک جگہ ہے اور گیلری تو بڑی پر سکون جگہ
ہے۔ میں انشاءاللہ پرسوں اس گیلری میں بیٹھ کر لوہاری دروازے کی بوسیدہ گلی والی
بیماری صغرا بی بی پر ایک کہانی ضرور لکھوں گا۔پارکر کا قلم، کسلے کا پیڈ، کولڈ
کافی کا گلاس، تھری کاسل کا سگریٹ، کاؤنٹر کے گلدان میں لگی یوکلپٹس کی پتیوں اور
ہوٹل میں بیٹھی خوبصورت نازک عورتوں کے کپڑوں کی یورپی مہک اور صغرا بی بی کا ونڈر
فل سبجیکٹ! ایسا افسانہ تو بس اسی جگہ بیٹھ کر لکھا جا سکتاہے۔
میں گیلری میں بیٹھا جھانک کر نیچے دیکھتا ہوں۔ تین ہم شکل، ہم لباس لڑکیاں گردنیں
اٹھائے سینہ تانے، آنکھوں میں مغرور چمک لئے داخل ہو رہی ہیں۔ گردنیں موڑے بغیر
آنکھیں اٹھائے بغیر ہر شخص کا جائزہ لینے لگا ہے۔ یہ دور شجاعت کے انگریزی ناولوں
کی ہیروئنیں معلوم ہو رہی ہیں، جو کبھی پھولدار بیلوں سے نصف ڈھکی ہوئی بالکونیوں
میں کھڑے ہو کر چاندنی راتوں میں اپنے محبوب کا انتظار کیا کرتی تھیں اورنوکیلی
رنگین چونچوں والے پرندوں کے پروں میں انتہائی جذبات، محبت نامے باندھ کر انہیں چوم
کر فضا میں چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ جو اپنے محبوب کی بے وفائی کا حال سن کر زہر کھا
لیا کرتی تھیں۔ لیکن اس ایٹمی دور میں عشق، فورڈ کارڈ کی چابی گھمانے سے سٹارٹ ہوتا
ہے اور محبت نامے کی چیک بک پر لکھے جاتے ہیں۔ اب یہ لڑکیاں محبوب کی بے وفائی کا
سن کر زہر کھانے کی بجائے چکن سینڈوچز کھا کر رومال سے منہ پونچھتی ہیں اور دوسرے
محبوب کی تلاش میں ، دوسری کار کی تلاش میں، دوسرے کیرئیر کی تلاش میں نکل پڑتی
ہیں۔ محبت کے جذبات آج کل اسپرو کی ایک ٹکیہ کھا کر غائب ہو جاتے ہیں اور عشق کا
ہیجان فروٹ سالٹ کے ایک ہی چمچ سے بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔شادی زندگی کے کاؤنٹر پر
مستقل سوداہے اور محبت کی شادی کی گاڑی کے پیچھے لٹکتا ہوا جوتا ہے۔
فضا میں ائیرکنڈیشنگ پلانٹ کی سونفی مہک کے ساتھ، باریک ریشمی کپڑوں کی لطیف
سرسراہٹ، بجلی کی دھیمی روشنی میں روغنی چہروں کی جھلملاہٹ، چاندی کے سرپوش والی
چنٹی مربہ کی شیشیوں کی چمک دمک اور مختلف قسم کے کھانوں کی خوشبوئیں گھل مل رہی
ہیں۔ دھیمی دھیمی باتوں کی بھنبھناہٹ ہے۔ مسرت اندوزی کے منصوبے میں خود اطمینانی
کی ہلکی ہلکی ہنسی ہے، خود پرستی کی ادائیں ہیں۔ گہرے اسرار و رموز والی پر اسرار
نگاہیں ہیںاور خواب ہیں۔ صحت مند دھلے دھلائے چہرہے ہیں۔ رگڑ رگڑ کر داڑھی مونڈے
گال ہیں۔ گردن، کندھے اور نظروں کے غیر ملکی ٹکسال میں ڈھلے ڈھلائے اشارے ہیں۔
پھنسی پھنسائی گردنیں ہیں۔ گھٹی گھٹی باتیں ہیں۔ برجی بارود کے ہونٹ ہیں، لولو
بریجڈا کے بازو ہیں، ڈورس ڈے کے بال ہیں، امریکی ٹائیاں ہیں۔ فرانسیسی عطر ہیں۔
انگریزی جوتے ہیں۔ سوئٹرزلینڈ، جرمنی، سیلون اور سنگا پور کی باتیں ہیں۔ کہیں چک
92ایف کی دوپہر میں ہل چلاتا کاشتکار نہیں۔ کہیں حلوائی کی دکان کے پھٹے پر پیا
جانے والا لسی کا گلاس نہیں، کہیں دور افتادہ گاؤں میں غوثیہ یونیورسٹی کی بنیاد
رکھنے والا ڈاکٹر فرید نہیں ، کہیں تاریک افریقہ کے جنگلوں میں انسانوں کی بھلائی
کے لئے زندگی وقف کردینے والا البرٹ شونیٹرز نہیں۔ کہیں صغراں بی بی کے زرد گالوں
اور کمر کی مستقل درد کے لئے کیلشیم نہیں۔ کہیں مشرقی پاکستان کے دریاؤں کے سیلاب
سے بر سر پیکار رہنے والے ماہی گیر نہیں۔ وہ اداس آنکھیں نہیں، وہ ناریل کے تیل لگے
گہرے سیاہ بال نہیں، کہیں وہ پہلی کی پہلی، بیوی سے محبت کرنے والا اور مہینے کے
اخیر میں اس کی پٹائی کرنے والا مفلوک احال ڈاکیہ نہیں، کوئی سیل زدہ دیوار نہیں جس
پر صرف تانبے کے چار گلاس اور تین تھالیاں لگی ہوں۔ کھیتوں کی کڑکتی دھوپ میں اپنی
ہیر کی راہ دیکھنے والا کوئی رانجھا نہیں۔۔
|