|
مٹی کی مونا لیزا
(اے۔ حمید)
سب ڈرائینگ روم لورز ہیں، ٹھنڈی نشست
گاہوں میں ، انناس کے قتلے اور کولڈ کافی کا گلاس سامنے رکھ کرمحبت کی سرد آہیں
بھرنے والے عاشق ہیں۔یوکلپٹس کی پتیوں کو فرنچ عطر کانوں پر لگاکر کہانیاں لکھنے
والے افسانہ نگار ہیں۔قوم، مذہب، ملت اور سیاست کے نام پر اپنی گاڑیوں میں پٹرول
ڈلوانے والےاور اپنی کوٹھیوں میں نئے کمرے بنوانے والے دردمندان قوم ہیں۔ عشرت
انگیزی ہے، تصنع آمیزی ہے، زر پرستی ہے، خود پسندی ہے، جعلی سکے ہیں کہ ایک کے بعد
بنتے چلے جارہے ہیں۔ روشنی کے داغ ہیں کہ ایک کے بعد ایک ابھرتے چلے جارہے ہیں۔
انہیں صغرا بی بی کے بچوں کی پھنسیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں اس کے ڈاکئے خاوند
کے تاج محل کی بربادی کا کوئی علم نہیں۔ انہیں کھڑی چارپائی پر گندے نالے کے پاس
رات بسر کرنے والوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دھان زمین میں اگتا ہے یا درختوں پر لگتا
ہے انہیں کوئی خبر نہیں۔ یہ اپنے ملک میں اجنبی ہیں۔ یہ اپنے گھر میں مسافر ہیں۔ یہ
اپنوں میں بیگانے ہیں۔ چیک بک، پاسپورٹ، کار کی چابی، کوٹھی اور لائسنس.... یہی ان
کا پاکستان ہے۔ یہ وہ باسی کھانے ہیں جن کی تازگی ریفریجریٹر بھی برقرارنہ رکھ سکا۔
یہ دو سورجوں کے دمیان کا پردہ ہیں۔ یہ کھلے ہوئے متبسم لبوں کے درمیان تاریک لکیر
ہیں۔ یہ اس غار کے منہ پر تنا ہوا جالا ہیں جہاں چاند طلوع ہو رہا ہے....
اب رات آسمان کی راکھ میں سے تاروں کے انگارے کریدنے لگی ہے۔ لوہاری دروازے کی تنگ
وتاریک گلی میں حبس ہے ، بدبو ہے، گرمی ہے، مچھر ہیں، پسینہ ہے، ٹوٹی پھوٹی کھری
چارپائیوں کی بینگی ٹیڑھی قطاریں ہیں، نالیوں پر جمی ہوئی گندگی ہے۔ چارپائیوں سے
نیچے لٹکتی ہوئی گلی کے فرش پر لگی ہوئی ٹانگیں ہیں۔کمزور باسی چہرے ہیں۔ پھٹے پھٹے
ہونٹ ہیں۔ صغرا بی بی اپنے چاروں بچوں کو پنکھا جھل رہی ہے۔ کوٹھڑی میں حبس کے مارے
دم گھٹا جا رہاہے۔ گندے نالے والی کھڑکی میں گرم ایشیائی رات کے سبز چاند کی جگہ
اوپلوں کا ڈھیر پڑا سلگ رہاہے۔ اس کاڈاکیہ خاوند پاس ہی پڑا خراٹے لے رہاہے۔ پنکھا
جھلتے جھلتے اب صغراں بی بی بھی اونگھنے لگی ہے۔ اب پنکھا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر
نیچے گر پڑا ہے۔ اب کمرے میں اندھیراہے۔ خاموشی ہے۔ چار بچوں کے درمیان سوئی ہوئی
مٹی کی مونا لیزا کے ہونٹ نیم وا ہیں۔ چہرہ کھنچ کر بھیانک ہو گیا ہے۔
آنکھوں کے حلقے گہرے ہوگئے ہیںاور رخساروں پر موت کی زردگی چھا گئی ہے۔ اس پر کسی
ایسے بوسیدہ مقبرے کا گمان ہو رہاہے، جس کے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہوں، جس کے
تعویذ پر کوئی اگر بتی نہ سلگتی ہو اور جس کے صحن میں کوئی پھول نہ کھلتا ہو۔
|