kitab ghar website logo





Don't Like Unicode ?  Read in Nastaleeq from Image Pages or Download the PDF File

 

Kitaabghar Blog:
Kitaabghar launched a Blog for discussion of urdu books available online on kitaabghar.com or any other website. Readers can also share views and reviews of books of their choice and promote their favourite writers. This is not limited to urdu books.



مہا لکشمی کا پل

 

(کرشن چندر)

 

 


شانتا بائی کی زندگی بھی اس کی ساڑھی کے رنگ کی طرح بھوری ہے۔ شانتا بائی برتن مانجنے کا کام کرتی ہے۔ اس کے تین بچے ہیں۔ ایک بڑی لڑکی ہے دو چھوٹے لڑکے ہیں۔ بڑی لڑکی کی عمر چھ سال ہوگی۔ سب سے چھوٹا لڑکا دو سال کا ہے۔ شانتا بائی کا خاوند سیون مل کے کپڑ کھاتے میں کام کرتا ہے ۔ اسے بہت جلد جانا ہوتا ہے۔ اس لئے شانتا بائی اپنے خاوند کے لئے دوسرے ان کی دوپہر کا کھانا رات ہی کو پکا کے رکھتی ہے۔ کیونکہ صبح اسے خود برتن صاف کرنے کے لئے اور پانی ڈھونے کے لئے دوسروں کے گھروں میں جانا ہوتا ہے اور اب وہ ساتھ میں اپنے چھ برس کی بچی کو بھی لے جاتی ہے اور دوپہر کے قریب واپس چال میں آتی ہے۔ واپس آکے وہ نہاتی ہے اور اپنی ساڑھی دھوتی ہے اور سکھانے کے لئے پل کے جنگلے پر ڈال دیتی ہے اور پھر ایک بے حد غلیظ اور پرانی دھوتی پہن کر کھانے پکانے میں لگ جاتی ہے۔ شانتا بائی کے گھر چولھا اس وقت سلگ سکتا ہے جب دوسروں کے ہاں چولھے ٹھنڈے ہو جائیں۔ یعنی دوپہر کو دو بجے اور رات کے نو بجے۔ ان اوقات میں ادھر اور ادھر سے دونوں وقت گھر سے باہر برتن مانجھنے اور پانی ڈھونے کا کام کرنا ہوتا ہے۔ اب تو چھوٹی لڑکی بھی اس کا ہاتھ بٹاتی ہے ۔ شانتا بائی برتن صاف کرتی ہے۔ چھوٹی لڑکی برتن دھوتی جاتی ہے۔ دو تین بار ایسا ہوا کہ چھوٹی لڑکی کے ہاتھ سے چینی کے برتن گر کر ٹوٹ گئے، اب میں جب کبھی چھوٹی لڑکی کی آنکھیں سوجی ہوئی اور اس کے گال سرخ دیکھتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں کہ کسی بڑے گھر میں چینی کے برتن ٹوٹے ہیں اور اس وقت شانتا بھی میری نمستے کا جواب نہیں دیتی۔جلتی بھنتی بڑبڑاتی چولھا سلگانے میں مصروف ہو جاتی ہے اور چولھے میں آگ کم اور دھواں زیادہ نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ چھوٹا لڑکا جو دو سال کا ہے دھوئیں سے اپنا دم گھٹتا دیکھ کر چیختا ہے شانتا بائی اس کے چینی کے ایسے نازک رخساروں پر زور زور کی چپتیں لگانے سے باز نہیں آتی اس پر بچہ اور زیادہ چیختا ہے۔ یوں تو یہ دن بھر روتا رہتا ہے کیونکہ اسے دودھ نہیں ملتا ہے اور اسے اکثر بھوک رہتی ہے اور دو سال کی عمر ہی میں اسے باجرے کی روٹی کھانی پڑتی ہے۔ اسے اپنی ماں کا دودھ دوسرے بھائی بہن کی طرح صرف پہلے پہلے چھ سات ماہ نصیب ہوا وہ بھی بڑی مشکل سے ۔ پھر یہ بھی خشک باجرے اور ٹھنڈے پانی پر پلنے لگا۔ ہماری چال کے سارے بچے اسی خوراک پر پلتے ہیں وہ دن بھر ننگے رہتے ہیں اور رات کو گدڑی اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔ سوتے میں بھی وہ بھوکے رہتے ہیں اور جاگتے میں بھی بھوکے رہتے ہیں اور جب شانتا بائی کے خاوند کی طرف بڑے ہوجاتے ہیں تو پھر دن بھر باجرا اور ٹھنڈا پانی پی پی کر کام کرتے جاتے ہیں اور ان کی بھوک بڑھتی جاتی ہے اور ہر وقت معدے کے اندر اور دل کے اندر اور دماغ کے اندر اک بوجھل سی دھمک محسوس کرتے ہیں اور جب پیگار ملتی ہے تو ان میں سے کئی ایک سیدھے تاڑی خانے کا رخ کرتے ہیں۔ تاڑی پی کر چند گھنٹوں کے لئے یہ دھمک زائل ہو جاتی ہے۔ لیکن آدمی ہمیشہ تو تاڑی نہیں پی سکتا۔ ایک دن پئے گا ۔ دو دن پئے گا تیسرے دن کی تاڑی کے پیسے کہاں سے لائے گا۔ آخر کھولی کا کرایہ دینا ہے۔ راشن کا خرچہ ہے۔ بھاجی ترکاری ہے۔ تیل اور نمک ہے ۔ بجلی اور پانی ہے۔ شانتا بائی کی بھوری ساڑھی ہے جو چھٹے ساتویں ماہ تار تار ہو جاتی ہے۔ جبھی سات ماہ سے زیادہ نہیں چلتی ۔ یہ مل والے بھی پانچ روپے چار آنے میں کیسی کھدی نکمی ساڑھی دیتے ہیں، ان کے کپڑے میں ذرا جان نہیں ہوتی۔ چھٹے ماہ سے جو تار تار ہونا شروع ہوتا ہے تو ساتویں ماہ بڑی مشکل سے سی کر جوڑ کے گانٹھ کے ٹانگے لگا کے کام دیتا ہے اور پھر وہی پانچ روپے چار آنے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اور وہی بھورے رنگ کی ساڑھی آجاتی ہے۔ شانتا کو بہ رنگ بہت پسند ہے۔ اس لئے کہ یہ میلا بہت دیر میں ہوتا ہے۔ اسے گھروں میں جھاڑو دینا ہوتی ہے۔ برتن صاف کرنے ہوتے ہیں، تیسری چوتھی منزل تک پانی ڈھوناہوتا ہے۔ وہ بھورا رنگ پسند نہیں کرے گی تو کیاکھلتے ہوئے شوخ رنگ گلابی، بسنتی، نارنجی پسند کرے گی اور اتنی بے وقوف نہیں ہے ۔ وہ تین بچوں کی ماں ہے۔
لیکن کبھی اس نے یہ شوخ رنگ بھی دیکھے تھے۔ پہنے تھے۔ انہیں اپنے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پیار کیا تھا جب وہ دھارا دار میں اپنے گاؤں میں تھی جب اس نے بادلوں میں شوخ رنگوں والی دھنک دیکھی تھی جہاں میلوں اس نے شوخ رنگ ناچتے ہوئے دیکھے تھے۔ جہاں اس کے باپ کے دھان کے کھیت تھے، ایسے شوخ ہرے ہرے رنگ کے کھیت اور آنگن میں پیڑو کا پیڑ جس کے ڈال ڈال سے وہ پیڑو توڑ توڑ کر کھایا کرتی تھی۔

 

Go to Page:

*    *    *

Maha Lakshami ka Pull by Karishan Chandar, a legendary urdu short story writer and novelest.

Go to Page :

Download the PDF version for Offline Reading.(Downloads )

(use right mouse button and choose "save target as" OR "save link as")

A PDF Reader Software (Acrobat OR Foxit PDF Reader) is needed for view and read these Digital PDF E-Books.

Click on the image below to download Adobe Acrobat Reader 5.0


[ Link Us ]      [ Contact Us ]      [ FAQs ]      [ Home ]      [ FB Group ]      [ kitaabghar.org ]   [ Search ]      [ About Us ]


Site Designed in Grey Scale (B & W Theme)