|
مہا لکشمی کا پل
(کرشن چندر)
جانے اب پیڑو میں
وہ مزاح ہی نہیں ہے وہ شیرینی اور گھلاوٹ نہیں ہے۔ وہ رنگ اور چمک دھمک کہاں جاکے
مر گئی اور وہ سارے رنگ کیوں یک لخت بھورے ہوگئے۔ شانتا بائی کبھی برتن مانجھتے
مانجھتے کھانا پکاتے ، اپنی ساڑھی دھوتے، اسے پل کے جنگلے پر لاکر ڈالتے ہوئے یہ
سوچا کرتی ہے اور اس کی بھوری ساڑھی سے پانی کے قطرے آنسوؤں کی طرح ریل کی پٹڑ ی
پر بہتے جاتے ہیں اور دوسرے دیکھنے والے لوگ ایک بھورے رنگ کی بد صورت عورت کو پل
کے اوپر جنگلے پر ایک بھوری ساڑھی کو پھیلاتے دیکھتے ہیں اور بس دوسری لمحے گاڑی پل
کے نیچے سے گزر جاتی ہے۔
جیونا بائی کی ساڑھی جو شانتا بائی کی ساڑھی کے ساتھ لٹک رہی ہے۔ گہرے بھورے رنگ کی
ہے بظاہر اس کا رنگ شانتا بائی کی ساڑھی سے بھی پھیکا نظر آئے گا لیکن اگرآپ غور سے
دیکھیں تو اس پھیکے پن کے باوجود یہ آپ کو گہرے بھورے رنگ کی نظر آئے گی۔ یہ ساڑھی
بھی پانچ روپے چار آنے کی ہے اور بڑی ہی بوسیدہ ہے۔ دو ایک جگہ سے پھٹی ہوئی تھی
لیکن اب وہاں پر ٹانکے لگ گئے ہیں اور اتنی دور سے معلوم بھی نہیں ہوتے ۔ ہاں آپ وہ
بڑا ٹکڑا ضرور دیکھ سکتے ہیں جو گہرے نیلے رنگ کا ہے اور اس ساڑھی کے پیچ میں جہاں
سے یہ ساڑھی بہت پھٹ چکی تھی لگایا گیا ہے ۔ یہ ٹکڑا جیونا بائی کی اس سے پہلی
ساڑھی کا ہے اور دوسری ساڑھی کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ جیونا
بائی بیوہ ہے اور اس لئے وہ ہمیشہ پرانی چیزوں سے نئی چیزوں کو مضبوط بنانے کے ڈھنگ
سوچا کرتی ہے ۔ پرانی یادوں سے نئی یادوں کی تلخیوں کو بھول جانے کی کوشش کرتی ہے ۔
جیونا بائی اپنے خاوند کے لئے روتی رہتی ہے۔ جس نے ایک دن اسے نشے میں مار مار کر
اس کی آنکھ کانی کر ڈالی تھی، وہ اس لئے نشے میں تھا کہ وہ اس روز مل سے نکالا گیا
تھا۔ بڈھا ڈھونڈو۔ اب مل میں کسی کام کا نہیں رہا تھا۔ گو وہ بہت تجربے کار تھا
لیکن اس کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ جوان مزدوروں کا مقابلہ کر سکتا
بلکہ وہ تو اب دن رات کھانسی میں مبتلا رہنے لگا تھا ۔ کپاس کے ننھے ننھے ریشے اس
کے پھیپڑوں یمں جا کے ایسے دھنس گئے تھے جیسے خیموں اور اینٹوں میں سوت کے چھوٹے
چھوٹے مہین ناکے پھنس کر لگ جاتے ہیں۔ جب برسات آئی تو یہ ننھے منے ریشے اسے دمے
میں مبتلا کر دیتے اور جب برسات نہ ہوتی تو وہ دن بھر اور رات بھر کھانستا ۔ ایک
خشک مسلسل کھنکار گھر میں اور کارخانے میں جہاں وہ کام کرتا تھا سنائی دیتی رہتی
تھی۔ مل کے مالک نے اس کھانسی کی خطرناک گھنٹی کو سنا اورڈھونڈو کو مل سے نکال دیا۔
ڈھونڈو اس کے چھ ماہ بعد مر گیا۔ جیونا بائی کو اس کے مرنا کا بہت غم ہوا۔ کیا ہوا
اگر غصے میں آکے ایک دن اس نے جیونا بائی کی آنکھ نکالی،تیس کی شادی شدہ زندگی ایک
لمحے پر قربان نہیں کی جا سکتی اور اس کا غصہ بجا تھا۔ اگر مل مالک ڈھونڈو کو یوں
بے قصور نوکری سے الگ نہ کرتا تو کیاجیونا کی آنکھ نکل سکتی تھی۔ ڈھونڈو ایسا نہ
تھا ۔ اسے اپنی بیکاری کا غم تھا۔ اپنی پینتیس سالہ ملازمت سے برطرف ہونے کا رنج
تھا اور سب سے بڑا رنج اسے اس بات کا تھا کہ مل مالک نے چلتے وقت اسے ایک دھیلہ بھی
نہ دیا تھا۔ پینتیس سال پہلے جیسے ڈھونڈو خالی ہاتھ مل میں کام کرنے آیا تھا اسی
طرح خالی ہاتھ واپس لوٹا اور دروازے سے باہر نکلنے اور اپنا نمبری کارڈ پیچھے چھوڑ
آنے پر اسے اک ڈھچکا سا لگا۔ باہر آکے اسے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے ان پینتیس سالوں
میں کسی نے اس کا سارا رنگ، اس کا سارا خون اس کا سارا رس چوس لیا ہو اور اسے بیکار
سمجھ کر باہر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا ہو اور ڈھونڈو بڑی حیرت سے مل کے
دروازے کو اور اس بڑی چمنی کو دیکھنے لگا جو بالکل اس کے سر پر خوفناک دیو کی طرح
آسمان سے لگی کھڑ ی تھی۔ یکایک ڈھونڈو نے غم اور غصے سے اپنے ہاتھ ملے اور زمین
پرزور سے تھوکا اور پھر تاڑی خانے چلا گیا۔
لیکن جیونا کی ایک آنکھ جب بھی نہ جاتی، اگر اسکے پاس علاج کے لئے پیسے ہوتے وہ
آنکھ تو گل گل کر سڑ سڑ کر خیراتی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور کمپونڈروں اور نرسوں کی
بد احتیاطیوں، گالیوں اور لا پروائیوں کا شکار ہو گئی اور جب جیونا اچھی ہوئی تو
ڈھونڈو بیمار پڑ گیا اور ایسا بیمار پڑاکہ پھر بستر سے انہ اٹھ سکا، ان دنوں جیونا
اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ شانتا بائی نے مدد کے طور پر اسے چند گھروں میں برتن
مانجھنے کا کام دلوادیا تھا اور گو وہ اب بوڑھی تھی اور مشاقی اور صفائی سے برتنوں
کو صاف نہ رکھ سکتی تھی پھر بھی وہ آہستہ آہستہ رینگ رینگ کر اپنے کمزور ہاتھوں میں
جھوٹی طاقت کے پورے سہارے پر جیسے تیسے کام کرتی رہی، خوبصورت لباس پہننے والی۔
خوشبودار تیل لگانے والی بیویوں کی گالیاں سنتی رہی، اور کام کرتی رہی۔
|